Tuesday, 8 May 2018

طویل لوڈشیڈنگ کے باعث شہر میں سولر پینل سسٹم کی فروخت بڑھ گئی

شہری رمضان سے قبل سولرسسٹم نصب کرنے کوترجیح دینے لگے،سولرسسٹم کے علاوہ بیٹری کے پنکھے اورچارجنگ لائٹس بھی دستیاب۔ فوٹو: ایکسپریس


 کراچی: بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ اور لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں اضافے کی وجہ سے شمسی توانائی سے بجلی بنانے کا طریقہ تیزی سے فروغ پارہا ہے۔
کراچی کے علاوہ اندرون سندھ اور بلوچستان میں بھی سولر سسٹم تیزی سے نصب کیے جارہے ہیں گھریلو استعمال کے علاوہ زرعی آبپاشی اور صنعتوں میں بھی سولر سسٹم نصب کرائے جارہے ہیں کراچی کے علاقے صدر میں واقع ریگل الیکٹرانکس مارکیٹ سولر سسٹم کی فروخت کا مرکز بن چکی ہے جہاں خوردہ اور تھوک سطح پر 70سے زائد چھوٹی بڑی دکانوں میں سولر سسٹم فروخت کیا جارہا ہے۔
گرمی میں لوڈ شیڈنگ کے ستائے شہریوں کی بڑی تعداد ریگل مارکیٹ کا رخ کررہی ہے جہاں سولر سسٹم کے علاوہ بیٹری سے چلنے والے پنکھے اور چارجنگ لائٹس بھی فروخت کی جاتی ہیں شہریوں کی اکثریت لوڈ شیڈنگ کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے رمضان سے قبل سولر سسٹم کی تنصیب کو ترجیح دے رہی ہے جس کی وجہ سے سولر سسٹم فروخت کرنے والی مارکیٹ میں گاہکوں کا رش دیکھا جارہا ہے۔
ریگل پر واقع علی شاہ ایسوسی ایٹس کے شہزاد شاہ نے بتایا کہ سولر سسٹم کی فروخت میں ایک سے 2 سال کے دوران 50 فیصد تک اضافہ ہوا ہے شہری علاقوں کے علاوہ بجلی سے محروم سندھ اور بلوچستان کے دیہی اور دور دراز علاقوں میں بھی سولر سسٹم کامیابی سے بجلی کی طلب پوری کررہا ہے سولر سسٹم ایک بار لگانے کی لاگت زیادہ ہے تاہم اس کے بعد 20 سے 25 سال تک بلاقیمت بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔
کراچی میں فروخت ہونے والے 50 فیصد سولر سسٹم سندھ اور بلوچستان کے دور دراز اور دیہی علاقوں میں لگائے جارہے ہیں سولر سسٹم سے پانی کی موٹریں بھی چلائی جاسکتی ہیں جس سے ٹیوب ویل کو منسلک کرکے زیر زمین پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے پانی سے محروم سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں زرعی ٹیوب ویلوں کا استعمال بڑھ رہا ہے لیکن چھوٹے کاشتکاروں کی قوت خرید سے باہر ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بڑے زمیندار اور کاشتکار ہی شمسی توانائی سے چلنے والا ٹیوب ویل نصب کرارہے ہیں۔
شہروں میں رہنے والے صارفین سولر سسٹم کے استعمال سے بجلی کے بلوں میں50 فیصد تک کمی لاسکتے ہیں سولر سسٹم سے پیدا ہونے والی بجلی پنکھے اور بلب جلانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، گھریلو استعمال کے لیے نصب کردہ سولر پینلز ریفریجریٹرز، واشنگ مشین یا پانی کی موٹر کا لوڈ نہیں اٹھاسکتے تاہم بھاری سرمایہ کاری کرکے ہیوی لوڈ اٹھانے وال سسٹم بھی نصب کیا جاسکتا ہے۔
کمپنیوں نے ویب سائٹ پر سولرلوڈکے تخمینے کی سہولت دیدی
پاکستان میں سولر سسٹم فروخت کرنے والی کئی کمپنیوں نے اپنی ویب سائٹس پر سولر لوڈ کا تخمینہ لگانے کی سہولت فراہم کی ہے جس کے ذریعے سولر پینل کی گنجائش کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ایک انرجی سیور25 واٹ فی گھنٹہ بجلی استعمال کرتا ہے، ٹیوب لائٹ 40 واٹ استعمال کرتی ہے، ایل ای ڈی بلب7واٹ ، پنکھا 100واٹ، ایل سی ڈی ٹی وی50 واٹ بجلی استعمال کرتا ہے۔
کمپیوٹر 250 واٹ، ریفریجریٹر کو ایک گھنٹہ چلانے پر350 سے 400 واٹ بجلی خرچ ہوتی ہے، واشنگ مشین 800 واٹ بجلی خرچ کرتی ہے، استری ایک ہزار واٹ، پانی کی ایک ہارس پاور کی موٹر 700 واٹ بجلی استعمال کرتی ہے سولر سسٹم پر اسپلٹ اے سی بھی چلائے جاسکتے ہیں تاہم اس کے لیے طاقتور سسٹم اور بیٹریوں کی ضرورت ہوگی ایک ٹن کا اسپلٹ 1800 سے 2000 واٹ بجلی استعمال کرتا ہے۔
پنکھا ساز کمپنیوں نے شمسی توانائی سے چلنے والے پنکھے بھی متعارف کرادیے
پنکھے بنانے والی کمپنیوں نے شمسی توانائی پر چلنے والے کم بجلی خرچ کرنے والے پنکھے متعارف کرادیے ہیں جو 12وولٹ ڈی سی یا 3 ایمپیئر بجلی خرچ کرتے ہیں اور فی گھنٹہ 36 واٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے ان پنکھوں کی قیمت 3000سے 3500 روپے تک وصول کی جارہی ہے 12وولٹ بجلی پر چلنے والے پیڈسٹل پنکھے بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جن کی قیمت  2800سے 3000روپے تک وصول کی جارہی ہے۔
سولر پینل کے معیار کی جانچ کا سرکاری نظام موجود نہیں
سولر پینلز چین سے درآمد کیے جاتے ہیں جبکہ بعض دکانوں پر یورپ کے استعمال شدہ پرانے سولر پینلز بھی فروخت کیے جارہے ہیں۔ سولر پینلز کے معیار کی جانچ کا کوئی سرکاری نظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے استعمال شدہ سولر سسٹم کے علاوہ ناقص کارکردگی کے سولر پینل فروخت کیے جانے کی شکایات بھی عام ہیں۔
محکمہ کسٹمز نے عوامی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے اب سولر پینلز کی کلیئرنگ تھرڈ پارٹی انسپکشن کمپنیوں کی تصدیق سے مشروط کردی ہے اور اب درآمدی سولر پینلز معیار کی تصدیق کا سرٹیفکیٹ پیش کرنے پر ہی کلیئر کیے جاتے ہیں جس سے مارکیٹ میں غیرمعیاری سولر پینلز کی فروخت کا رجحان کم ہوا ہے۔
کراچی کی مارکیٹ میں3 طرح کے سولر پینلز فروخت کیے جارہے ہیں جن میں مونو کرسٹالین یا سنگل کرسٹل سلیکان پینل، پولی کرسٹالین یا پولی سلیکان پینل اور ٹی ایف ٹی پینلز شامل ہیں مونو کرسٹالین پینلز کم روشنی اور بادل چھائے رہنے کے دوران بھی کام کرتا ہے اس کے برعکس پولی کرسٹالین پینلز زیادہ تر کھلے میدانی علاقوں یا وسیع چھتوں پر نصب کیے جاتے ہیں جنھیں سورج کی براہ راست روشنی درکار ہوتی ہے۔
کراچی کے موسم کے لحاظ سے زیادہ تر مونو کرسٹالین پینلز موزوں ہیں اور زیادہ فروخت کیے جاتے ہیں، پولی کرسٹالین کی قیمت مونو کرسٹالین پینلز کے مقابلے میں کم ہے سولر پینلز کی قیمت توانائی پیدا کرنے کی گنجائش کے لحاظ سے مقرر کی جاتی ہے، مارکیٹ میں سولر پینلز 60 روپے واٹ (W) سے 70 روپے فی واٹ قیمت پر فروخت کیا جارہاہے استعمال شدہ پینلز 40سے 50روپے فی واٹ قیمت کے لحاظ سے فروخت کے جاتے ہیں۔
تین سے چار کمروں کے گھروں کے لیے چار پنکھوں اور چھ سے آٹھ بلب چلانے کے لیے 250 واٹ کے 2 پینلز درکار ہوتے ہیں جن میں 20 ہزار روپے تک کی لکویڈ بیٹری شامل ہے بعض خریدار بیٹری چارج کرنے کے بجائے صرف دن کے اوقات میں شمسی توانائی استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اس طرح بیٹری کی لاگت بچ جاتی ہے۔
پورے گھر کا لوڈ اٹھانے کے لیے 3 سے 5 کے وی کا سولر سسٹم نصب کیا جاتا ہے جس میں سولر پینل، بیٹریاں اور انورٹرز شامل ہیں 5 کے وی کے سولر سسٹم کی قیمت 4 لاکھ50ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک بتائی جاتی ہے، چار کے وی کا سسٹم 4 لاکھ روپے جبکہ 3 کے وی کا سسٹم ڈھائی سے 3 لاکھ روپے میں دستیاب ہے ایک کلو واٹ کا سولر سسٹم ایک لاکھ روپے تک میں نصب کرایا جاسکتا ہے۔
سیاحت کے لیے پورٹیبل سولر پینل بھی فروخت کیے جانے لگے
ریگل مارکیٹ میں سیاحت کے لیے خصوصی پورٹیبل سولر پینل بھی فروخت کیا جارہاہے اس پینل کو لپیٹ کر چھوٹے بیگ میں رکھا جاسکتا ہے پینل کی قیمت 2500 روپے ہے جس سے ایک پنکھا، دو لائٹس چلائی جاسکتی ہیں اس کے علاوہ موبائل فون بھی چارج کیا جاسکتا ہے یہ پینل کار یا کسی بھی گاڑی کی چھت پر بھی نصب کیاجاسکتا ہے پینل مقامی سطح پر تیار کیا گیا ہے جو دوران سفر یا عارضی طور پر شمسی توانائی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔
الیکٹرانکس مارکیٹ میں چھوٹے سائز کے سولر پینل بھی فروخت کیے جارہے ہیں جن میں 3 واٹ کا موبائل چارج کرنے والا پینل 500 سے 600 روپے جبکہ ایک چھوٹا پنکھا اور لائٹ چلانے والا 2000 روپے تک کا پینل شامل ہے مارکیٹ میں فروخت کی جانے والی معروف برانڈز میں جنکو، جے ایس سولر، سرینا ، جی ایچ برانڈ اور سی سنگ نامی برانڈز شامل ہیں۔

Tuesday, 5 September 2017

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (چودہویں اور آخری قسط)

تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ 1947ء میں تقسیم ہند کے نتیجے میں ہندوستان سے پاکستان کی جانب مسلمانوں نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی۔ پاکستان بننے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ درحقیقت یہی تھا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی آباد کاری اور بحالی کا کام کس طرح کیا جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ افراد نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور اِن ہجرت کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا۔
محض یہ ہجرت نہیں تھی بلکہ خون کا دریا پار کرنے کے مترادف بھی تھا کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اِس تقسیم اور ہجرت کے دوران 5 سے 8 لاکھ افراد نے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ ظالموں نے تو عورتوں کی عزتوں کو بھی نہیں چھوڑا اور اِسی ہجرت کے دوران ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ تقسیم کے دوران کم از کم نوے ہزار عورتیں اغواء بھی کی گئیں۔ ان ہی فسادات، خون ریزی اور ظلم و زیادتی کی جھلک پاکستان اور بھارت دونوں کے ادیبوں کی پنجابی، ہندی اور اردو زبان میں لکھی گئی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے۔ امرتا پریتم، سعادت حسن منٹو، خشونت سنگھ اور اشفاق احمد کی تحریریں اِس پُردرد ہجرت کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔


قائد اعظم کی تنخواہ ’ایک روپے‘ ماہانہ

قائد اعظم محمد علی جناحؒ نہ صرف بانی پاکستان کی حیثیت سے لائق احترام اور بلند مرتبے پر فائز ہیں بلکہ محمد علی جناح کی نفیس شخصیت، اصول پسندی اور اعلیٰ کردار بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
بیس برس کی عمر میں قائد اعظم ممبئی میں ایک نوجوان وکیل کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے۔ 1900ء میں برطانوی چیمبر میں سر چارلس کے چیمبر میں ملازمت کی تو تنخواہ 1500 روپے ماہوار مقرر ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے وقت قائداعظم محمدعلی جناحؒ برصغیر کے کامیاب ترین وکلاء میں شامل تھے اور تب ان کی ماہانہ آمدنی بھی لاکھوں روپے ماہانہ تھی۔ اس کے باوجود، جب قائداعظمؒ نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا تو اپنے لیے ایک روپیہ ماہانہ تنخواہ مقرر کی۔ اس بارے میں قائداعظمؒ فرمایا کرتے تھے کہ گورنر جنرل کا عہدہ دراصل ایک ذمہ داری ہے جس کی حیثیت اعزازی نہیں ہونی چاہیے، اس لیے انہوں نے اپنی ماہانہ تنخواہ ایک روپیہ مقرر کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ پاکستان پر کوئی احسان نہیں کررہے۔ یہ قائد اعظم کی بے غرضی اور پاکستان سے بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم سب اور خاص کر ہمارے حکمرانوں کو قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے شفاف کردار سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ طاقت، اقتدار اور قابلیت کے باوجود بھی عظیم رہنماؤں کا شیوہ یہی ہوا کرتا ہے۔

وہیل کا ارتقاء اور پاکستان

سیارہ زمین پر پایا جانے والا سب سے بڑا ممالیہ (دودھ پلانے والا جانور) وہیل ہے جس کے ارتقائی مراحل کے حوالے سے پاکستان کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہیل کا جدامجد آج سے تقریباً 5 کروڑ سال پہلے (موجودہ) پاکستان کے شمالی علاقے میں ’’کالا چٹا‘‘ پہاڑی کے مقام پر پایا جاتا تھا اور اسے ’’پاکی سیٹس‘‘ (پاکستانی وہیل) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کتے جتنی جسامت کا ممالیہ تھا جو غالباً دریا کے کنارے رہا کرتا تھا۔ وہیل کے ارتقاء میں دوسرا اہم نام ’’ایمبیولوسیٹس‘‘ (چلنے والی وہیل) کا ہے جس کے رکازات پنجاب میں ’’کلدانا فارمیشن‘‘ کے مقام سے ملے ہیں۔ یہ آج سے تقریباً 4 کروڑ 80 لاکھ سال پہلے یہاں پایا جاتا تھا اور تب یہ جگہ ساحلِ سمندر پر واقع ہوتی تھی۔ ایمبیولوسیٹس کسی چھوٹے مگرمچھ کی طرح دکھائی دیتا تھا جبکہ غالباً یہ اپنا زیادہ وقت پانی میں گزارا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ شمالی اور وسطی پاکستان، اور مغربی بھارت سے بھی ’’کچھی سیٹس‘‘ (کچھی وہیل) نامی معدوم جانوروں کے رکازات ملے ہیں جو یہاں 4 کروڑ 30 لاکھ سے 4 کروڑ 80 لاکھ سال پہلے کے زمانے میں رہتے تھے۔ یہ آج کی وہیل سے زیادہ قریب تھے لیکن جسامت میں خاصے چھوٹے تھے۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف مقامات سے وہیل کے ارتقائی رکازات (فوسلز) ملے ہیں جو ان ہی کے سلسلے میں ہیں۔ ان تمام دریافتوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جدید وہیل نے اپنے ارتقاء کی اہم ترین منزلیں ان مقامات پر طے کیں جو آج پاکستان کا حصہ ہیں؛ جو اپنے آپ میں ایک منفرد اعزاز ہے۔


سب سے زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی

آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ پاکستان میں ’’مریچھا‘‘ (Mareecha) نسل کی اونٹنی کو دنیا میں سب سے زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی بھی قرار دیا جاتا ہے جو اوسطاً 22 لیٹر یومیہ کی شرح سے 270 دن تک دودھ دے سکتی ہے جبکہ یہ عرصہ زیادہ سے زیادہ 540 دن تک ہوسکتا ہے۔ اپنی اسی خوبی کی بناء پر مریچھا اونٹنی کو مشرقِ وسطی اور افریقہ کے ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ چولستان کے صحرائی علاقے میں بھی مریچھا اونٹنیوں سے دودھ کی سالانہ اوسط پیداوار 4179 لیٹر حاصل کی گئی ہے۔ عالمی ادارہ برائے غذا و زراعت (ایف اے او) کا کہنا ہے کہ اگر اونٹ کی افزائشِ نسل پر توجہ دی جائے تو مستقبل میں دنیا کو غذائی مسئلے سے بھی نجات دلا سکتا ہے۔



مقبول ترین ملی نغمہ؛ دوسرا قومی ترانہ

1987 میں پاکستان کی 40 ویں سالگرہ کے موقعے پر پاکستان ٹیلی ویژن سے ملی نغمہ ’’دل دل پاکستان، جان جان پاکستان‘‘ پہلی بار نشر ہوا۔ نثار ناسک کی شاعری ہر مشتمل، شعیب منصور کی ہدایات میں فلمایا جانے والا یہ قومی نغمہ اس وقت کے نوجوان پاپ بینڈ ’’وائٹل سائنز‘‘ (Vital Signs) نے گایا تھا جس میں جنید جمشید، روحیل حیات، نصرت حسین اور شہزاد حسن شامل تھے۔ یہ نغمہ اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ اس نے ’’پاکستان کے دوسرے قومی ترانے‘‘ کے طور پر دنیا بھر میں شہرت حاصل کرلی۔ آج پاکستان کی 70 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے اور ’’دل دل پاکستان‘‘ کو بھی 30 سال پورے ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی اس نغمے کی تازگی بالکل اسی طرح برقرار ہے جیسے پہلی بار نشر ہونے پر تھی۔ بی بی سی کے مطابق 2003 میں کیے گئے ایک آن لائن سروے میں ’’دل دل پاکستان‘‘ کو مقبول ترین پاکستانی نغمے کا اعزاز حاصل ہوا۔
 https://youtu.be/OMx72StK68E

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (تیرہویں قسط)

دودھ کی پیداوار میں نمایاں عالمی مقام

دنیا میں 200 سے زائد ممالک ہیں لیکن کچھ ہی ایسے ہیں جو دودھ کی پیداوار میں خود کفیل ہیں۔ 2017ء میں جاری ہونے والی فہرست کے مطابق پاکستان کا کمال یہ ہے کہ دودھ کی پیداوار کے حوالے سے یہ دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ فہرست کے مطابق 2016 کے دوران پاکستان میں دودھ کی مجموعی پیداوار 4 کروڑ 20 لاکھ ٹن رہی تھی۔ لیکن اب اِسے آپ پاکستان کی بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی کہ اِس قدر پیداوار کے باوجود یہاں کی عوام کو نہ تو خالص دودھ ملتا ہے اور نہ ہی اِس سے بنی ہوئی دوسری چیزیں، بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں نامناسب ماحول کی وجہ سے یہ عظیم نعمت سب سے زیادہ ضائع ہوجاتی ہے۔
اِس فہرست میں پاکستان سے آگے صرف چین، امریکہ اور بھارت ہیں، لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ تینوں ممالک وسائل اور آبادی کے اعتبار سے بہت آگے ہیں اور اِس صورتحال میں پاکستان کا یہ مقام حاصل کرنا یقیناً ایک اہم بات ہے۔

پاکستان کی عالمی جغرافیائی اہمیت

پاکستان قدرتی طور پر ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو سیاسی، اقتصادی، تزویری (strategically) اور جغرافیائی اعتبار سے اننتہائی اہمیت کا حامل ہے؛ اور پچھلے 40 سال سے عالمی طاقتوں کی سرگرمیوں کا مرکز نگاہ ہے۔ اگر محل وقوع کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی سمندری حدود خلیج فارس کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ سمندری بندرگاہوں سے محروم وسط ایشیائی ریاستوں کو بحیرہ عرب اور بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی فراہم کرکے بین الاقوامی منڈی تک رسائی کےلیے راہداری فراہم کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کی سرحد مشترک ہے۔ کراچی اِس کی بڑی بندرگاہ ہے اور دنیا بھر کے بحری جہازوں میں ایندھن بھرنے کا ایک بڑا اڈہ ہے۔ اس کے علاوہ گوادر کی بندرگاہ بھی تیزی سے ترقی کے مراحل طے کر رہی ہے۔
پاکستان کو وسط ایشیا کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان ممالک تک کم سے کم فاصلہ طے کرتے ہوئے رسائی صرف پاکستان کے راستے ہی سے ہوسکتی ہے۔ وسط ایشیائی ممالک تیل اور قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال ہیں؛ اور اسی لیے یہ عالمی سیاسی چالوں کی نئی بساط بھی ہیں۔ پاکستان جغرافیائی محل وقوع سے مشرق وسطیٰ کے اُن ممالک کے قریب بھی ہے جو قدرتی وسائل سے بھرپور ہیں۔ یہ بیلٹ ایران سے شروع ہوتی ہوئی بحیرہ عرب کے جنوب سے سعودی عرب تک جاپہنچتی ہے جو عالمی منڈی میں سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ اگر سرمایہ کاری کی جائے تو ہماری تجارتی مارکیٹ ہمارے ہمسایہ ملکوں کی اشیاء کی برآمدات کے لیے عالمی منڈی کی حیثیت حاصل کرسکتی ہے، جس سے فائدہ ہمارے ملک کو بھی پہنچے گا۔
گہرے پانیوں کی بندر گاہ گوادر نہ صرف چین بلکہ وسط ایشیائی ریاستوں اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے لیے بہت کشش رکھتی ہے۔ ایران بھی گیس اور تیل دیگر ممالک کو برآمد کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اِس صورت حال میں پاکستان کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی ہے۔ چین کی خصوصی دلچسپی کا محور منصوبہ ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو پاکستان کی موجودہ جغرافیائی اہمیت کو دوچند کردے گا۔


انتظار حسین، اردو تصنیف پر بُکر پرائز کیلئے نامزد ہونے والے پہلے پاکستانی

انتظار حسین نہ صرف پاکستان  بلکہ اردو ادب کے وہ پہلے ادیب ہیں جنہیں بُکر پرائز (Booker Prize) کیلئے نامزد کیا گیا۔ یہ ایوارڈ دراصل برطانیہ کے معروف مصنفین کے انعام کا ایک حصہ ہے۔ یہ انعام کسی بھی قومیت کے ایسے مصنفین کو دیا جاتا ہے، جن کا کام انگریزی زبان میں موجود ہو۔
انتظار حسین کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو ادب (خاص کر افسانہ نگاری) کے اہم ترین ادیبوں میں کیا جاتا تھا۔ انتظار حسین 1923ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے اور میرٹھ کالج سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ہجرت کے بعد پاکستان آئے تو صحافت سے وابستہ ہوئے۔ افسانوں کے آٹھ مجموعے، چار ناول، آپ بیتی کی دو جلدوں کے تراجم انتظار حسین نے کیے اور سفر نامے بھی لکھے۔ وہ انگریزی میں کالم لکھتے رہے جبکہ ان کا ایک ناول اور افسانوں کے 4 مجموعے انگریزی میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔  بُکر پرائز وہ بین الاقوامی انعام ہے جو ہر دو سال بعد ایسے مصنفوں کو دیا جاتا ہے جو بقیدِ حیات ہوں اور جنہوں نے انگریزی میں کتابیں تحریر کی ہوں یا پھر ان کی کتابوں کے انگریزی تراجم دستیاب ہوں۔


اکیسویں صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت اور خاتون پاکستانی سائنسداں

11 فروری 2016 کے روز دو بین الاقوامی تحقیقی منصوبوں ’’لائیگو‘‘ (LIGO) اور ’’وِرگو‘‘ (Virgo) نے مشترکہ اعلان جاری کیا کہ آخرکار کششِ ثقل کی موجیں (گریوی ٹیشنل ویوز) دریافت کرلی گئی ہیں جن کی پیش گوئی لگ بھگ 100 سال پہلے آئن اسٹائن نے اپنے عمومی نظریہ اضافیت (جنرل تھیوری آف ریلیٹی ویٹی) میں کی تھی؛ اور اسے اکیسویں صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت بھی قرار دیا گیا۔ اس خبر میں ایک پاکستانی نژاد خاتون سائنسداں، ڈاکٹر نرگس ماول والا کا نام بہت نمایاں تھا کیونکہ وہ ’’لائیگو‘‘ تحقیقی منصوبے سے وابستہ کلیدی ماہرین میں شامل تھیں۔ نرگس ماول والا کا تعلق کراچی کی پارسی کمیونٹی سے ہے اور وہ او لیول اور اے لیول کرنے کے بعد امریکا چلی گئیں جہاں انہوں نے 1997 میں ’’میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘‘ (ایم آئی ٹی) سے پی ایچ ڈی کیا۔ اس کے بعد وہ فلکیات اور طبیعیات کے مختلف تحقیقی منصوبوں سے وابستہ رہیں جن میں ’’لائیگو‘‘ بھی شامل ہے۔ نرگس ماول والا اس وقت ایم آئی ٹی میں شعبہ طبیعیات کی شریک سربراہ اور ’’کرٹس اینڈ کیتھلین ماربل پروفیسر آف ایسٹروفزکس‘‘ بھی ہیں۔ ان کی سائنسی و تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں 2017 میں امریکا کی ’’نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کی اعزازی رکنیت بھی دے دی گئی ہے۔


لڑاکا طیاروں کی کم وقت میں مرمت

1965 کی پاک بھارت جنگ میں جہاں افواجِ پاکستان نے محاذ پر شجاعت کے جوہر دکھائے وہیں پاکستانی انجینئر، ماہرین اور تکنیکی عملہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ اس جنگ میں پاک فضائیہ سے وابستہ زمینی عملے نے لڑاکا طیاروں کی مرمت کرنے اور انہیں اگلے معرکے کےلیے تیار کرنے میں جس مستعدی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے؛ اور اس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا گیا ہے۔ جب پاک فضائیہ کا کوئی لڑاکا طیارہ اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ہوائی اڈے پر اُترتا تو وہاں تعینات زمینی (تکنیکی) عملہ فوری طور پر اسے ہینگر میں لے جاتا اور ضروری مرمت، ایندھن بھرنے اور اسلحے سے لیس کرنے کے بعد صرف 9 منٹ میں اگلی فضائی کارروائی کےلیے تیار کردیتا۔ اس کے مقابلے میں بھارتی فضائیہ کا زمینی عملہ یہ ساری کارروائی مکمل کرنے میں تقریباً 1 گھنٹہ لگادیتا۔ 1965 کی جنگ میں پاک فضائیہ نے اپنے سے کم از کم 4 گنا بڑی بھارتی فضائیہ کو دھول چٹا دی تھی؛ اور عالمی دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فتح میں جہاں پاک فضائیہ کے ماہر پائلٹوں کا کردار تھا وہیں زمینی عملے کی غیرمعمولی پھرتی کو بھی نظرانداز کیا جاسکتا کیونکہ کوئی لڑاکا جتنی دیر تک مرمت، ایندھن بھرائی اور اسلحے سے لیس ہونے کے مراحل سے گزرتا ہے، اتنی دیر کےلیے وہ میدانِ جنگ سے غیر حاضر ہوتا ہے۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی لڑاکا طیارے بھی اپنے ہر پھیرے کے بعد صرف 7 منٹ 45 سیکنڈ بعد اگلے پھیرے کےلیے تیار کردیئے جاتے تھے؛ اور اسی وجہ سے اسرائیلی فضائیہ کا پلہ اس جنگ میں بہت بھاری رہا۔

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (بارہویں قسط)

کوئلے کے وسیع ذخائر

جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے 1992 میں سندھ کے صحرائے تھر میں کوئلے کے ذخائر دریافت کیے جو ایک وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جبکہ مجموعی طور پر یہ 175 ارب ٹن جتنے ہیں۔ اگر ان میں صوبہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کوئلے کے دیگر ذخائر بھی شامل کرلیے جائیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر 185 ارب ٹن پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان ذخائر کا بڑا حصہ لگنائٹ قسم کے کوئلے پر مشتمل ہے جو اپنے معیار کے اعتبار سے اینتھراسائٹ کے بعد دنیا کا دوسرا بہترین کوئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا میں کم تر معیار والے ’’سب بٹومینس‘‘ اور لگنائٹ کوئلے کے مجموعی ذخائر 135 ارب ٹن سے کچھ زیادہ ہیں جبکہ تھر میں کوئلے کا ذخیرہ اس سے بھی 50 ارب ٹن زیادہ ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان اپنے کوئلے کے یہ ذخائر استعمال کرتے ہوئے آئندہ 100 سال تک اپنی بجلی کی تمام ضروریات پوری کرسکے گا۔
عالمی پروپیگنڈے کے برعکس، پاکستانی کوئلے میں سلفر اور راکھ کی مقدار خاصی کم ہے جبکہ فیصل آباد میں واقع تحقیقی ادارے ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ‘‘ (NIBGE) کے ماہرین 2005 ہی میں ایسے صنعتی طریقے وضع کرچکے تھے جنہیں استعمال کرتے ہوئے اس کوئلے میں شامل راکھ اور سلفر کی مقدار بہت کم کی جاسکتی تھی۔ افسوس کہ حکومتِ پاکستان نے اس جانب توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیمتی کوئلہ اب تک عالمی ماحولیاتی اعتراضات کی وجہ سے ملکی معیشت کو خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچا رہا۔


ڈاکٹر عادل نجم کا اعزاز؛ جسے اعزاز نہیں سمجھا گیا

یہ 2007 کا واقعہ ہے جب اقوامِ متحدہ نے سابق امریکی نائب صدر البرٹ گور اور ’’بین الحکومتی پینل برائے تغیر آب و ہوا‘‘ (آئی پی سی سی) کو ماحولیاتی تحفظ کے میدان میں گراں قدر خدمات پر امن کے نوبل انعام کا مشترکہ حقدار ٹھہرایا۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ آئی پی سی سی کو جن تحقیقی رپورٹوں کی بنیاد پر امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا، ان میں سے ایک رپورٹ کے مرکزی مصنف ڈاکٹر عادل نجم تھے، جو پاکستانی ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر عادل نجم اس ٹیم کا حصہ تھے جسے نوبل انعام برائے امن 2007 میں شریک ٹھہرایا گیا۔ 1980 کے عشرے میں مقامی اخبارات کےلیے کالم نگاری سے آغاز کرنے والے ڈاکٹر عادل نجم راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور سے سول انجینئرنگ میں سند حاصل کی۔ نوجوانی کے زمانے میں وہ پاکستان ٹیلی ویژن سے کئی معلوماتی اور مذاکراتی پروگراموں کے میزبان بھی رہے جبکہ بعد ازاں انہوں نے ایم آئی ٹی، امریکا سے پی ایچ ڈی کیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2009 میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ دیگر علاقائی و بین الاقوامی اعزازات اس کے علاوہ ہیں۔ وہ بوسٹن یونیورسٹی میں ’’پارڈی اسکول آف گلوبل اسٹڈیز‘‘ کے بانی چیئرمین بھی مقرر ہوئے اور تاحال اسی عہدے پر کام کررہے ہیں۔


اردو ادب کے مزاح نگاروں کا سب سے بڑا مرکز

پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو زبان کی ترویج اور ادب کو فروغ دینے والے اہل قلم حضرات اسی سرزمین پر بستے ہیں۔ اردو ادب میں ایک بڑا حصہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے شاعروں، ادیبوں، نقادوں، نثر نگاروں کا بھی ہے۔ اگر پاکستانی مزاح نگاروں کی بات کریں تو ان کی مثال دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں ملتی۔
اگر اردو مزاح نگاری میں چراغ حسن حسرت، شوکت تھانوی، مجید لاہوری، ابراہیم جلیس، شفیق احمد، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا اور پطرس بخاری سے لے کر ڈاکٹر یونس بٹ اور عطا الحق قاسمی جیسے کالم نگار، نثر نگاری کو عروج تک پہنچا چکے تو اردو مزاحیہ شاعری میں ضمیر جعفری، ظریف جبل پوری، دلاور فگار، مسٹر دہلوی، انور مسعود اور اطہر شاہ خان (جیدی) جیسے نام بھی اردو ادب میں مزاح کے بامِ فلک پر جگمگا رہے ہیں۔
یہ اور اِن کے علاوہ سینکڑوں دوسرے پاکستانی مزاح نگاروں نے اپنے انداز سخن سے اردو ادب کو چار چاند لگائے؛ اور اپنے منفرد طرز اسلوب میں عالمی، قومی، معاشرتی اور انسانی فطری پہلوؤں کا احاطہ بخوبی کیا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اردو مزاح کے ایسے قلم کار ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کے طرزِ نگارش میں ایسی بے ساختگی ہے کہ پڑھنے والا قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ زر گزشت، چراغ تلے، خاکم بدہن اور آبِ گم مشتاق احمد یوسفی کی سدا بہار تصنیفات ہیں۔ شوکت تھانوی کی شہرۂ آفاق تخلیق ’’چچا چھکن‘‘ ہے جس کی بیوقوفیوں اور بد حواسیوں نے ایک دنیا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا جب کہ شفیق احمد کی حماقتیں میں ’’روفی‘‘ کا کردار کسی طور بُھلائے جانے کے لائق نہیں۔
ضمیر جعفری کی ’’ کراچی کی بس میں سفر ہورہا ہے‘‘ اور ’’پرانا کوٹ‘‘ جیسی شہرہ آفاق نظمیں سادہ زبانی اور مزاح میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔

دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس

آج کمپیوٹر ہیکنگ اور وائرس کا استعمال بہت عام ہے، اگرچہ آج کے دور میں وائرس کا استعمال غلط طریقے سے استعمال ہوتا ہے لیکن دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس پاکستانی نوجوانوں نے 1986 میں کمپیوٹر پروگرامز کی غیرقانونی نقل سازی (کاپی) روکنے کےلیے کیا تھا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے باسط فاروق علوی اور امجد فاروق علوی ان دنوں کمپیوٹر سے متعلق ساز و سامان (بشمول سافٹ ویئر) کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ اس وقت کمپیوٹر اتنا جدید اور تیز رفتار نہیں تھا جتنا آج ہے۔ اسی کام کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ کمپیوٹر کا استعمال کرنے والے غیر قانونی سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں۔ انہیں ایسے لوگوں کو سبق سکھانے کا انوکھا طریقہ سجھائی دیا۔ اسی سوچ نے ’’برین‘‘ کو تخلیق کیا، جو دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس تھا۔ اس کا بنیادی مقصد صرف اتنا تھا کہ اگر کسی کمپیوٹر سے سافٹ ویئر کی غیرقانونی کاپی بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ وائرس اسی کے ساتھ منتقل ہوجائے اور اس پروگرام کو چلنے ہی نہ دے۔ اس ایجاد کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور سافٹ ویئر کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کو غیرقانونی نقل سے بچانے کےلیے ایسے ہی اقدامات کیے۔ البتہ جیسے جیسے کمپیوٹر نے ترقی کی اور اس کا استعمال بڑھا، ویسے ویسے جرائم پیشہ لوگوں نے بھی وائرس تیار کرنا شروع کردیئے اور صرف چند سال میں وائرس تیار کرنا جرائم پیشہ کارروائی ہی بن کر رہ گیا۔

قطبین کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرز والی سرزمین

دنیا کے قطبین یعنی قطب شمالی اور قطب جنوبی میں پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ برف کی شکل میں موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ برف پگھل جائے تو سمندر کی سطح کئی میٹر تک بلند ہوسکتی ہے جس سے دنیا کے بیشتر ساحلی شہر ڈوب سکتے ہیں۔ یہ تو رہی ایک بات لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ قطبین کے بعد پاکستان کے شمالی علاقوں میں سب سے زیادہ گلیشیئر ہیں، جو پاکستان کےلیے اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن بدقمستی سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن کی وجہ سے دوہرے خطرات کا خوف ہے۔ پہلا یہ کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوجائیں تو ملک میں سیلاب کے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں۔

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (گیارہویں قسط)

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، پی سی ایس آئی آر اور نیم

پاکستان کے ممتاز کیمیاداں، مصور اور ادبی ناقد ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ڈاکٹر سلیم الزماں بھارتی ضلع بارہ بنکی میں 19 اکتوبر 1897ء کو پیدا ہوئے اور جرمنی میں یونیورسٹی آف فرینکفرٹ سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد انڈین کونسل فار سائنس اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سے وابستہ ہوئے۔ ہجرت کے بعد پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی بنیاد رکھی اور ملک میں صنعتی ترقی کے لیے بہترین ادارے قائم کئے۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اپنی زندگی میں 300 سے زائد تحقیقی مقالے لکھے اور 40 سے زائد ادویہ یا مرکبات کی پیٹنٹ اپنے نام کیں جن میں نیم سے حاصل ہونے والے اجزاء سرِفہرست ہیں۔ انہوں نے ہولرینا پودوں پر غیرمعمولی تحقیق کی جن سے دل، دماغ اور بلڈ پریشر کے امراض کی علاج کی راہیں ہموار ہوئیں۔ بین الاقوامی کمپنیوں نے اِس دریافت سے خطیر رقم کمائی۔ ڈاکٹر صاحب کی انہی خدمات کے نتیجے میں 1966ء میں انہیں ’بابائے ہولرینا کیمیا‘ کا خطاب دیا گیا۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے انتخابات میں استعمال ہونے والی انمِٹ سیاہی کا فارمولا بھی بنایا جو آج تک استعمال ہورہا ہے۔ ملک کو سائنسی بنیادوں پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والا یہ درویش صفت سائنسداں جب 14 اپریل 1994ء کو اِس دنیا سے رخصت ہوا تو رہائش کے لیے اپنا ذاتی مکان تک نہ تھا۔


ڈیرہ غازی خان کی شاہراہِ حیرت

ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو جانے والی شاہراہ لگ بھگ 80 کلومیٹر طویل ہے لیکن ارضیاتی اور معدنی خزانوں سے مالا مال ہے۔ جیسے ہی آپ ڈیرہ غازی خان سے روانہ ہوتے ہیں تو پہلے اِس روڈ کے دونوں اطراف چھوٹی مشینیں دکھائی دیتی ہیں جو سڑک اور عمارات تعمیر کرنے والے اہم کنسٹرکشن مٹیریل کو چھوٹے پتھروں میں ڈھالتی ہیں۔ یہ معیاری مٹیریل عمارت، سڑکیں اور پل وغیرہ بنانے میں استعمال ہورہے ہیں۔
اسی پہاڑی سلسلے میں سیمنٹ بنانے کا اہم جزو جپسم بکثرت موجود ہے جو قریبی سیمنٹ فیکٹریوں کوفراہم کیا جارہا ہے۔ اِس کے علاوہ چونے کے پتھر کے اہم ذخائر بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔
یہ علاقہ پاکستان بھر میں یورینیم کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اگرچہ اِس روڈ پر یورینیم کی کم مقدار والی سرمئی مٹی دکھائی دیتی ہے تاہم اِس سے قریب بغل چُور کے علاقے میں اعلیٰ یورینیم کے ذخائر موجود ہیں۔ اِس سے آگے بڑھیں تو اِسی روڈ پر تیل و گیس کے ذخائر بھی اپنی شان دکھاتے نظر آتے ہیں۔
ایک مقام پر پہاڑ کے درمیان میں کتھئی رنگ کی ایک پٹی دیکھی جاسکتی ہے جسے ’کے ٹی‘ یعنی (کرے ٹیشیئس-ٹیریٹری) باؤنڈری کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو اب سے ساڑھے چھ (6.5) کروڑ سال قبل ایک عظیم سانحے کی یاد دلاتا ہے جس سے ڈائنوسار صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق آسمان سے گرنے والے ایک شہابِ ثاقب کی وجہ سے ڈائنوسار ختم ہوئے تھے۔ کے ٹی باؤنڈری کے آثار پوری دنیا میں موجود ہیں لیکن فورٹ منرو میں یہ بہت اچھی طرح نمایاں ہیں۔ یہ روڈ دنیا کا ایک عجوبہ ہے جہاں ایک ہی مقام پر اتنی ساری معدنیات اور ارضیاتی خزانے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ماربل، کوارٹز اور دیگر اہم معدنیات بھی بکثرت پائی جاتی ہیں۔


پاکستان کی ہوائی شاہراہ

سندھ میں جھمپیر اور گھارو کے اطراف میں پاکستان کی سب سے تیز ہوا چلتی ہے جسے سندھ شاہراہِ باد (وِنڈ کوریڈور) کا نام دیا گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں اب تک 50 سے زائد ہوائی ٹربائن لگائی جاچکی ہیں اور ہر ٹربائن اوسطاً ایک سے ڈیڑھ میگا واٹ بجلی بناتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے یہاں ترک کمپنی زورلو انرجی نے ٹربائن لگانے کا آغاز کیا اور اب قریباً تین چار کمپنیاں ٹربائن لگارہی ہیں۔ تمام تر سست رفتاری اور عدم تشہیر کے باوجود سندھ ونڈ کوریڈور کو دنیا بھر میں صاف اور سستی بجلی بنانے کا ایک اہم مرکز تسلیم کرلیا گیا ہے۔


قدیم مہر گڑھ کی قدیم ٹیکنالوجی جو آج بھی استعمال ہورہی ہے

گزشتہ برس سائنسی حلقوں میں ایک خبر نے پاکستان کی زبردست اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ فرانس کے ماہرین نے اعلان کیا کہ بلوچستان میں سبی کے مقام پر مہر گڑھ کے آثار سے ایک پینڈنٹ نما شے 25 برس قبل دریافت ہوئی تھی۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ یہ دنیا کا اولین نمونہ ہے جو دھات کاری (میٹالرجی) کی ایک خاص تکنیک ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔
مندرجہ ذیل تصویر میں دکھائی دینے والی یہ چیز شاید نظرِ بد سے بچنے کے لیے یا پھر زیور کے طور پر بنائی گئی تھی۔ خالص تانبے سے بنی اِس شے کو پہلے موم سے بنایا گیا پھر اِس سخت موم کو نرم گارے کے دو ٹکڑوں کے درمیان سینڈوچ کی طرح دبا دیا گیا اور مٹی کے ٹھیکرے کو دھوپ میں سکھا کر سخت کردیا گیا تھا۔ اِس طرح موم خدوخال کا ایک سانچہ وجود میں آگیا ۔ آخری مرحلے میں ایک باریک سوراخ کرکے پگھلا ہوا تانبا اندر ڈالا گیا جس نے موم کو پگھلا کر غائب کردیا اور یوں تانبے کا بے جوڑ لیکن پیچیدہ پینڈنٹ وجود میں آگیا۔
یہ ٹیکنالوجی ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کہلاتی ہے جو ’انویسٹمنٹ کاسٹنگ‘ کے نام سے اب بھی استعمال ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی یہ تکنیک استعمال کررہا ہے۔


پاکستان میں عطیہ برائے سائنس کا دائرہ

اگرآپ جامعہ کراچی میں واقع حسین ابراہیم جمال (ایچ ای جی) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری سے تین کلومیٹر کا ایک دائرہ کھینچیں تو اُس میں چار سے پانچ اہم سائنسی تحقیقی ادارے ایسے آجائیں گے جو مخیرحضرات کی جانب سے عطیہ کردہ رقم سے بنائے گئے ہیں اور اب تمام ادارے بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔
اِن اداروں میں سب سے پہلے خود ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری شامل ہے جو کراچی کے ایک صنعتکار لطیف ابراہیم جمال کی جانب سے 50 لاکھ روپے کی خطیر رقم سے (1970 کے عشرے میں) تعمیر کیا گیا۔ اب یہ ادارہ دنیا بھر میں کیمیا پر اعلیٰ ترین تحقیق کے حوالے سے مشہور ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس کے پہلو میں ایک اور مخیر پاکستانی کے عطیے سے ’’ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ‘‘ قائم کیا گیا۔ ان دونوں اداروں کو کچھ ہی عرصے میں یکجا کرکے ’’انٹرنیشنل سینٹر فار دی کیمیکل اینڈ بایولوجیکل سائنسز‘‘ (آئی سی سی بی ایس) قرار دے دیا گیا جو نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ دنیا بھر میں حیاتی و کیمیائی تحقیق کا اہم مرکز بن چکا ہے۔ صرف ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں یہاں کے ماہرین نے 24 کے قریب پیٹنٹ اپنے نام کی ہیں اور پاکستان بھر میں 350 سے زائد صنعتیں اِس ادارے کی تحقیقات سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔
ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ (کے آئی بی جے آئی) واقعہ ہے جسے پاکستان کے ممتاز ایٹمی سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ذاتی کاوشوں اور مالی امداد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اِسی طرح این ای ڈی یونیورسٹی میں کاوس جی ارتھ اسٹڈی سینٹر قائم کیا گیا ہے جسے ممتاز کالم نگار اور دانشور اردشیر کاوس جی کی ذاتی مالی مدد کے بعد قائم کیا گیا ہے۔ اِس مرکز میں زلزلہ برداشت کرنے والی عمارتوں اور مختلف مادوں پر بھی تحقیق کی جارہی ہے۔
یہ ادارے پاکستان میں عطیہ برائے سائنس کی زبردست مثال ہیں۔

Sunday, 27 August 2017

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (دسویں قسط)

دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام

جی ہاں، یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں ہی پایا جاتا ہے جہاں کی 43 فیصد آبادی کا پیشہ زراعت ہے اور ملک کے 47.03 فیصد رقبہ پر زراعت کی جاتی ہے۔ زرعی نظام کا بنیادی جزو پانی ہے اور قابلِ کاشت اراضی کو پانی فراہم کرنے کیلئے پاکستان میں نہری نظام تعمیر کیا گیا۔ دریائے سندھ  پاکستان کے نہری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریز سرکار نے قریباً نصف صدی قبل مختلف مقامات پر دریائے سندھ سے نہریں نکال کر اور بند باندھ  کر زرعی اراضی کو پانی فراہم کرنے کیلئے نہری نظام قائم کیا، جو آج دنیا میں سب سے بڑا نہری نظام مانا جاتا ہے۔ شاید اِسی سبب دریائے سندھ کو اباسین بھی کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں (دریاؤں کا باپ)۔
پاکستان میں موجود دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کے ذریعے 4 ملین ایکڑ زرعی زمین کو پانی فراہم کیا جاتا ہے جس پر گندم، چاول، پھل، سبزیاں، گنّا اور دیگر اجناس کاشت کی جاتی ہیں۔ اِس مقصد کیلئے دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم کے علاوہ 85 چھوٹے بند، 19 بیراج، 45 نہریں، 12 رابطہ نہریں اور 7 لاکھ ٹیوب ویل قائم کئے گئے ہیں۔


ایشیاء کا پہلا لیپروسی کنٹرول ملک

یہ 1958ء کی بات ہے جب پاکستان میں جذام کا مرض شدت اختیار کرنے لگا اور مریضوں کی مناسب دیکھ بھال، علاج اور آگاہی نہ ہونے کے باعث جذام پھیلنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ اِسی دوران ایک جرمن خاتون رتھ فاؤ نے جب کوڑھ کے مرض میں مبتلا مریضوں کے متعلق ایک ڈاکیومینٹری فلم دیکھی تو لرز گئی اور انسانیت کی فلاح کی خاطر جرمنی سے کراچی چلی آئی۔ اِس حوصلہ مند خاتون نے کراچی ریلوے اسٹیشن میکلوڈ روڈ پر ایک چھوٹا سا جذام کنٹرول سینٹر قائم کیا اور اِس مرض میں مبتلا افراد کا علاج شروع کیا۔ بتدریج یہ سینٹر ترقی کرتا گیا اور 1965ء میں ایک اسپتال کی حیثیت اختیار کرگیا۔
جذام کے مرض کے خلاف رتھ فاؤ کی جانب سے شروع کی جانے والی مہم پاکستان میں جذام کے مرض کیخلاف اتنی زور و شور سے چلی کہ جذام کے علاج اور کنٹرول کیلئے 156 مراکز قائم ہوگئے۔ 1996ء میں پاکستان کو ’’لیپروسی کنٹرول‘‘ ملک قرار دیدیا گیا۔ یوں پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جسے جذام سے پاک ملک قرار دے دیا گیا تھا، لیکن البتہ حالیہ برسوں میں اِس بیماری نے دوبارہ سر اُٹھایا ہے مگر اب یہ مکمل طور پر قابل علاج ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسط 400 سے 500 نئے جذام کے مریض رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔
اِس مرض کیخلاف کامیابی حاصل کرنے میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اُن کی اِسی خدمات کے صلے میں انہیں حکومتِ پاکستان نے 1988ء میں پاکستان کی شہریت عطا کی، جبکہ ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشانِ قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ 8 اگست 2017ء کو محسنِ پاکستان ڈاکٹر رتھ فاؤ سے جہاں سے سدھار گئیں۔


کم رقبے پر بھی سارے موسم

رقبے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 35واں بڑا ملک ہے جو 881,913 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ اپنی 20 کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ دنیا کا ساتواں سب سے گنجان آباد ملک بھی ہے لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے پاکستان میں جتنے زیادہ اقسام کے موسم یعنی ماحولیاتی خطّے پائے جاتے ہیں، وہ اِس رقبے والے شاید کسی دوسرے ملک میں نہیں۔ پاکستان میں سطح سمندر سے لے کر 8 ہزار میٹر بلندی تک، ہر طرح کی آب و ہوا اور ماحول پائے جاتے ہیں۔ یہاں گرم صحرائی علاقے بھی ہیں اور میدانی علاقے بھی، سطح مرتفع بھی ہے اور بلند و بالا پہاڑی مقامات، خشک مقامات بھی ہیں اور ایسی جگہیں بھی کہ جہاں سال کے بیشتر حصے میں بارش یا برف باری ہوتی رہتی ہے۔ اِس متنوع فیہ ماحول کی مناسبت سے پاکستان میں نباتات (پودوں، درختوں، جھاڑیوں) اور جانوروں کی لاکھوں اقسام پائی جاتی ہیں جن پر تحقیق کرکے بیش بہا فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بایوٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری اس بارے میں کہتے ہیں: ’’پاکستان اپنے ماحول اور نباتات و حیوانات (flora and fauna) کے اعتبار سے جس قدر مالا مال ہے، اِس پر تحقیق کرکے اور فائدے حاصل نہ کرکے بھی ہم دراصل کفرانِ نعمت ہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔‘‘


ایشاء کی سب سے بڑی عارضی مویشی منڈی

ہر سال کراچی میں قائم ہونے والی عارضی مویشی منڈی کو ایشیاء کی سب سے بڑی مویشی منڈی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ عید قرباں کیلئے ذی الحج سے ایک ماہ قبل ہی کراچی میں سپر ہائی وے، سہراب گوٹھ پرعارضی منڈی قائم کی جاتی ہے جس میں ملک بھر سے مختلف جانور لائے جاتے ہیں۔ سات سو ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط منڈی میں اعلیٰ نسل کے بکرے، گائے، دنبے اور اونٹ رکھے جاتے ہیں۔ یہاں اونٹوں کیلئے الگ حصہ مختص ہے جہاں تھر کے خاص اونٹ بھی لائے جاتے ہیں جن کے جسم پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہوتے ہیں۔
گزشتہ برسوں کے اعداد و شمار کے مطابق اِس منڈی میں 3 لاکھ جانور لائے جاتے ہیں جن میں پونے دو لاکھ بڑے اور سوا لاکھ چھوٹے جانور لائے جاتے ہیں۔ یہاں لائے گئے جانور کی قیمت 20 ہزار سے 25 لاکھ کے درمیان ہوتی ہے۔ گزشتہ برسوں سے اِس منڈی میں کاروباری حضرات کی خاص دلچسپی کی بدولت ملک کے بہترین فارموں میں پلے اعلیٰ نسل کے جانور لائے جاتے ہیں، جن کا قد و قامت اور وزن کے تناسب سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ تجارتی مفادات بڑھنے کی وجہ سے منڈی میں جگہ کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ فارم ہاؤس کے جانور وی آئی پی ٹینٹ میں رکھے جاتے ہیں جن کا کرایہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔ لوگ دور دراز سے اِن طویل القامت اور بھاری بھرکم جانوروں کو دیکھنے آتے ہیں جن کو دودھ، مکھن، دیسی گھی اور میوہ جات کھلا کر فروخت کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔


دالیں پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک

دالیں ہماری غذا کا اہم ترین حصہ ہیں۔ ماہرین غذائیت کے مطابق دالیں، گوشت کا نعم البدل ہیں اور پروٹین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ سب سے اہم ترین بات یہ کہ پاکستان دنیا بھر میں دالوں کی پیداوار میں بھارت کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔
محکمہ زراعت پنجاب کے مطابق پاکستان میں 1.5 ہیکٹر رقبہ پر دالیں کاشت کی جاتیں ہیں جو کہ کُل زیرِ کاشت رقبہ کا 6.7 فیصد حصہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً تمام ہی اقسام کی دالیں کاشت کی جاتی ہیں جن میں چنا، مونگ، مسور، ارہر قابلِ ذکر ہیں۔ ہمارے ملک میں مونگ کی دال کی مانگ زیادہ ہے اور اِس وجہ سے مونگ کی اوسط پیداوار تقریباً سات من فی ایکڑ ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ میگنیشیم کی کمی دل کے امراض کا سبب بنتی ہے اور دالوں کے استعمال سے اِس کی کمی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دالوں میں موجود فائبر خون میں کولیسٹرول کا لیول کم کرتا ہے جبکہ دالیں شوگر کے مریضوں کے لئے بھی انتہائی مفید ہیں۔

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (نویں قسط)

ایٹمی طاقت کا حامل، دنیا کا پہلا اور واحد مسلم ملک

28 مئی 1998ء کی تاریخ اِس لحاظ سے یادگار ہے کہ اُس روز پاکستان نے ایٹم بم کے اوّلین تجرباتی دھماکے کیے تھے اور یوں وہ ایٹمی طاقت کا حامل، عالمِ اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔ علاوہ ازیں، دنیا بھر میں پاکستان وہ ساتواں ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان نے تقریباً دو ہفتے قبل بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں یہ ایٹمی تجربات کیے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر دنیا کے نام نہاد امن پسند حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات کیے گئے لیکن دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو برصغیر کے علاوہ پورے ایشیاء میں طاقت کا توازن بھیانک طور پر بگڑ جاتا جس کا نتیجہ ایک ایسی تباہی کی شکل میں نکل سکتا تھا جس کا شاید کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے نہ صرف برصغیر میں طاقت کا توازن بحال ہوا اور ایک بار پھر پائیدار امن کی اُمید روشن ہوئی تو دوسری جانب ایشیاء میں ایک منفرد منظر نامہ بھی سامنے آیا۔ پاکستان، چین اور بھارت ایسے تین ممالک ہیں جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اور تینوں کے تینوں ہی ایٹمی طاقت ہیں۔ یہ معاملہ پوری دنیا میں کہیں پر بھی نہیں۔


مار خور دنیا کا نایاب جانور

یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے، لیکن شاید یہ نہیں جانتے ہیں پاکستان کا یہ قومی جانور دنیا میں جانوروں کی نایاب ترین نوع ہے۔ مارخور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اُن 72 جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر عالمی تنظیم برائے جنگلی حیات کے 1976ء میں جاری کردہ خصوصی سکہ جات کے مجموعے میں شامل ہے۔ جنگلی بکرے کی خصوصیات کا حامل یہ خوبصورت جانور گلگت بلتستان کی ٹھنڈی فضاؤں کے علاوہ کشمیر، چترال اور کیلاش کی سرسبز وادیوں میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ یہ قیمتی اور کم یاب نوع بھارت، افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے کچھ علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں بالغ مارخور کی تعداد 25 سو (ڈھائی ہزار) سے بھی کم ہے۔
مارخور پہاڑی علاقوں میں رہنا پسند کرتا ہے اور 600 سے 3600 میٹر کی بلندی تک پایا جاسکتا ہے۔ اِس کے قد و قامت میں نمایاں اِس کے مضبوط اور مڑے ہوئے سینگ ہیں جن کی لمبائی 143 سینٹی میٹر تک ہوسکتی ہے۔ جبکہ اِس کا وزن 104 کلو گرام تک ہوتا ہے اور اونچائی 102 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ مارخور کی تین اقسام مشہور ہیں جن میں استور مارخور، بخارائی مارخور اور کابلی مارخور شامل ہیں۔
مارخور پاکستان کی انٹیلی جینس ایجنسی آئی ایس آئی کا نشان بھی ہے۔ مارخور فارسی کے الفاظ کا مجموعہ ہے، جس میں ’مار‘ کے معنی سانپ اور ’خور‘ کے معنی ہیں کھانے والا۔ مارخور کے متعلق بہت سی لوک کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ اِن مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر اُس کو چبا جاتا ہے، اور اُس جگالی کے نتیجے میں اِس کے منہ سے جھاگ نکلتا ہے جو نیچے گر کر خشک اور سخت ہوجاتا ہے اور جسے پھر سانپ کے کاٹنے پر تریاق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔


وادی کیلاش کا انوکھا قبیلہ 

وادی کیلاش اپنی منفرد تہذیب، رنگا رنگ تہواروں اور حسین و دلکش مناظر کی بدولت دنیا بھر میں جُداگانہ مقام رکھتی ہے۔ کیلاش صوبہ خیبر پختونخوا، ضلع چترال میں کوہ ہندو کش کے دامن میں آباد ایک قبیلہ ہے، جس کا طرزِ رہائش اور رسومات، لباس اور رواج منفرد تسلیم کی جاتی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح وادی کیلاش گھومنے اور کیلاش قبیلہ کی بودو باش دیکھنے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔
وادی کیلاش کے تہوار اور رسمیں دلچسپ اور عجیب ہیں۔ بہار کی آمد کا استقبال وادی میں چِلم جوش کے تہوار سے کیا جاتا ہے۔ ہر سال 14 سے 16 مئی تک منعقد ہونے والے چِلم جوش کی تقریبات دیکھنے ہزاروں سیاح کیلاش کے برفیلے پہاڑوں تک پہنچتے ہیں۔ تہوار کے پہلے روز سب افراد کو بکری کا دودھ تقسیم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے نومولود بچوں کو دودھ پلایا جاتا ہے، پھر دوسرے بچوں کی باری آتی ہے، اِس کے بعد نوجوانوں، جوانوں اور بڑوں کو تھوڑا تھوڑا دودھ پینے کے لئے دیا جاتا ہے۔ تمام افراد کو دودھ پہنچا کر اِس تقریب کا باقاعدہ افتتاح ہوتا ہے۔ بعد ازاں قبیلے کے بزرگ کُھلے آسمان تلے روٹی پکاتے ہیں جسے تمام افراد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اِس روٹی میں میوہ جات بھی ڈالے جاتے ہیں، جو یہاں کی ایک سوغات بھی ہے۔ روٹی کھانے کے بعد تمام مرد و خواتین مذہبی مقام ’جسٹک خان‘ کے سامنے سے گزر کر ایک مخصوص میدان میں آتے ہیں جہاں خواتین ڈھول کی تاپ پر ناچتی اور گاتی ہیں۔ کیلاش کی خواتین کا رنگ برنگا روایتی لباس بھی انہیں دوسروں سے مختلف بناتا ہے۔
اِس کے علاوہ وادی کیلاش میں جب کسی کی موت واقع ہوجاتی ہے تو سوگ کے بجائے جشن منایا جاتا ہے۔ میت کے سرہانے موسیقی بجانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قبیلے کے تمام لوگ رقص کرتے ہیں اور اِس موقع پر روایتی پکوان پکا کر کھائے جاتے ہیں۔


طویل ترین قوالی کا اعزاز

پاکستانیوں نے یوں تو دنیا کے سامنے مختلف شعبہ جات میں اپنا لوہا منوایا ہے، جن میں ایک قوالی کا فن بھی ہے۔ پاکستان میں عزیز میاں قوال، نصرت فتح علی خان اور صابری خاندان قوالی کی دنیا میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں بارہا اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔
17 اپریل 1942ء کو جنم لینے والے عزیز میاں قوال پاکستان کے ایسے قوال ہیں جنہوں ںے جنوبی ایشاء سمیت دنیا بھر میں فنِ قوالی کے ذریعے پاکستان کا مثبت رخ پیش کیا۔ عزیز میاں کا منفرد لب و لہجہ اور انداز تو صدیوں تک یاد رکھا جائے تاہم قوالی کی تاریخ میں ’’طویل ترین قوالی‘‘ ریکارڈ کرانے کا سہرا بھی عزیز میاں کے سر ہی جاتا ہے۔
عزیز میاں کی قوالی ’’حشر میں پوچھوں گا‘‘ اب تک دنیا کی طویل ترین ریکارڈ کی جانے والی قوالی ہے۔ 155 منٹ دورانیے کی اِس قوالی کا ریکارڈ اب تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ عزیز میاں غزلوں کو بھی قوالی کے انداز میں گایا کرتے تھے۔ عزیز میاں کا ایک اور کمال یہ کہ وہ اپنی قوالیاں خود لکھا کرتے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں 1989ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔ عزیز میاں کا انتقال 6 دسمبر 2000ء میں ایران کے دارلحکومت تہران میں ہوا، لیکن اُن کا جسد خاکی ملتان میں دفنایا گیا۔


اجرک پاکستان کی خوبصورت ثقافت

اجرک پاکستان کی روایتی سوغات ہے جو صدیوں پرانی تہذیب کا حصہ ہے۔ دریائے سندھ کنارے آباد وادی مہران کی خاص پہچان ایک مخصوص چادر اجرک بھی ہے۔ سرخ اور سیاہ رنگ میں چھپی ہوئی رنگین چادر سندھ میں عزت اور وقار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لوگ اِسے کاندھے پر اور گردن میں ڈالتے ہیں۔ خاص طور پر سندھ میں یہ خاص رواج ہے کہ گھر میں آئے مہمانوں کو عزت اور احترام سے نوازنے کے لیے اجرک پیش کی جاتی ہے۔
اجرک انتہائی قدیم ثقافت کا جزو ہے۔ موئن جو دڑو سے ملنے والے نوادرات میں کنگ پریسٹ کا مجسمہ بھی شامل ہے۔ جس کے ایک کاندھے پر ایک کپڑا اجرک سے مشابہہ ہے۔ فی زمانہ اجرک مختلف رنگوں میں دستیاب ہے لیکن سرخ رنگ اجرک کو علیحدہ ہی حُسن عطا کرتا ہے۔ اجرک کی چھپائی کیلئے پہلے مختلف جیومیٹریکل ڈیزائنوں کو لکڑی کے بلاکس پر منقش کیا جاتا ہے جسے بعد میں کپڑے پر چھاپ کر اجرک تیار کی جاتی ہے۔ اجرک کی تیاری کیلئے سندھ کے شہر مٹیاری، ہالا، بِھٹ شاہ، مورو، سکھر، کنڈیارو اور حیدر آباد مشہور ہیں۔