Thursday, 23 March 2017

’الاقصیٰ القدیم‘ اور یروشلم کو ’الوداع‘

الاقصیٰ القدیم، وہ جگہ جہاں نبی ِکریم ﷺ نے معراج کی رات انبیاء کرام کی نماز کی امامت کرائی تھی
الاقصیٰ القدیم، وہ جگہ جہاں نبی ِکریم ﷺ نے معراج کی رات انبیاء کرام کی نماز کی امامت کرائی تھی

آخری قسط ۔۔۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھی، جب عبدالقادر کی آواز نے چونکا دیا، ’آج فجر کے بعد میں آپ کو یہاں مسجد کے باہر ملوں گا اور ایک ایسی جگہ دکھاؤں گا جو آپ کو ہمیشہ مسجد ِقبلی سے روحانی طور پر باندھ کر رکھے گی‘۔۔۔
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

ہوٹل واپسی پر سونے کا ارادہ یوں ملتوی کرنا پڑا کہ اگلے روز بارہ بجے تل ابیب سے امریکہ واپسی کی پرواز تھی۔ عبدالقادر کا کہنا تھا کہ بارہ بجے کی فلائٹ کے لیے ہمارے لیے لازم ہے کہ کم از کم نو بجے تل ابیب ہوائی اڈے پہنچ جائیں۔ یوں شدید تھکان کے باوجود ہوٹل پہنچ کر اپنا اٹیچی کیس کھول کر بیٹھ گئے، سامان باندھا اور اگلے تین گھنٹے خواب ِخرگوش کے مزے لیے۔
صبح فجر کی نماز تو مسجد ِاقصیٰ میں ادا کرنے کا ارادا تو تھا ہی، مگر ساتھ ہی دل میں خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ائیر پورٹ جانے سے پہلے کا تمام وقت الحرم الشریف میں مسجد ِقبلی اور قبتہ الصخرة میں گزارا جائے۔
صبح کے وقت قبتہ الصخرہ کا نظارہ
صبح کے وقت قبتہ الصخرہ کا نظارہ
صبح گہرے دبیز اندھیرے میں ڈوبی تھی، جب ہم عبدالقادر کے ساتھ نماز ِفجر کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوگئے۔ یروشلم کی مسجد ِاقصیٰ کی طرف جاتی گلیوں سے میں ان تین چار دنوں میں اتنی مانوس ہو چکی تھی کہ یوں گمان ہوتا تھا کہ جیسے ہمیشہ سے انہیں دیکھتی چلی آئی ہوں۔ ہم روز کے راستے سے باب الاسباط سے مسجد ِاقصیٰ کی طرف بڑھنے لگے۔ آج میرے قدموں میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بوجھل پن نمایاں تھا اور دل میں یہ احساس کہیں غالب تھا کہ سر زمین ِقبلہ ِاول میں آج یہ میرا آخری دن تھا۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھی، جب عبدالقادر کی آواز نے چونکا دیا، ’آج فجر کے بعد میں آپ کو یہاں مسجد کے باہر ملوں گا اور ایک ایسی جگہ دکھاؤں گا جو آپ کو ہمیشہ مسجد ِقبلی سے روحانی طور پر باندھ کر رکھے گی‘۔ ’مگر مسجد ِاقصیٰ تو میں روز دیکھتی ہوں۔ پھر بھلا آج کیا ایسی خاص بات ہوئی؟‘ ۔۔۔میرے سوال پر عبدالقادر مسکرا دیا اور تلقین کی کہ فجر کی ادائیگی کے بعد سات بجے کے قریب ہم مسجد کے باہر ملیں۔
نماز ِفجر میں روز کی طرح نمازیوں کی معقول تعداد موجود تھی۔ خواتین کی صفیں بھی پُر رونق تھیں۔ یہاں پر ایک فلسطینی خاتون مریم کی یاد آئی جو روزانہ فجر کی نماز کے بعد خواتین سے مخاطب ہوکر عربی میں باتیں کرتی تھی، خدا جانے کیا کہتی تھی۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ مریم کا بآواز ِبلند بولنا مجھے گراں گزرتا تھا اور دو روز پہلے تو میں نے اسے اشاروں میں ٹوک کر بتانے کی کوشش بھی کی کہ نماز کے بعد خواتین کے جھرمٹ سے بولا کم کرو یا پھر آہستہ بولا کرو۔ جماعت سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ وہی مریم میرے قریب آکر بیٹھ گئی، مجھے لگا کہ وہ مجھ سے دو روز پہلے والی بات پر خفا ہوگی اور اسی سلسلے میں بات کرنے آئی ہوگی۔ اس کے ہاتھ میں کجھوروں اور خوبانی سے بھری ایک ٹوکری تھی۔ میں نے اس کے اصرار پر کھجور اٹھالی۔ اب اس نے اپنے پرس میں سے نماز کے اذکار والی ایک چھوٹی سی کتاب نکالی اور عربی اور انگریزی کے الفاظ میں مجھے یہ سمجھایا کہ وہ اپنی پاکستانی بہن کے لیے تحفہ لائی ہے۔ میں شرمندہ ہوگئی، میرے سلوک کا اس نے کیسا اچھا جواب دیا تھا۔
الاقصیٰ القدیم کے اندر
الاقصیٰ القدیم کے اندر
سات بجے حسب ِوعدہ میں مسجد سے باہر نکل آئی جہاں عبدالقادر منتظر کھڑا تھا۔ ’آئیے، آپ کو اصل مسجد ِقبلی دکھاتے ہیں‘۔ ’ہیں، کیا مطلب؟ یہ مسجد ِقبلی نہیں جہاں میں روز فجر ادا کرتی ہوں؟‘ ۔ میں عبدالقادر کی بات پر حیران ہی رہ گئی۔ مسجد ِقبلی سے باہر نکل کر ساتھ ہی کچھ سیڑھیاں نیچے کی طرف جاتی ہیں اور اس تہہ خانے پر ’الاقصیٰ القدیم‘ کی تختی لگی ہوئی ہے۔ یہ عمارت اب خواتین کے ایک کتب خانے کا کام دیتی ہے۔
الاقصیٰ القدیم وہ مقام ہے جہاں نبی ِکریم ﷺ نے معراج کی رات انبیاء علیہ السلام کی نماز کی امامت کرائی تھی
الاقصیٰ القدیم وہ مقام ہے جہاں نبی ِکریم ﷺ نے معراج کی رات انبیاء علیہ السلام کی نماز کی امامت کرائی تھی

مگر تاریخ میں اس عمارت کی آب و تاب کہیں زیادہ ہے۔ در حقیقت یہی مسجد ِقبلی ہے اور جس مسجد میں مسلمان اب نماز ادا کرتے ہیں وہ صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کے بعد قائم کی گئی۔ میں عبدالقادر کے پیچھے پیچھے ’الاقصیٰ القدیم‘ میں داخل ہو گئی۔ عبدالقادر سیدھا چلتا رہا اور مجھے ایک کمرے میں لے گیا جہاں دیوار کے اندر محرابیں بنی ہوئی تھیں۔ ’مدیحہ، یہ وہ مقام ہے جہاں پر نبی ِکریم صل اللہ و علیہ وسلم نے معراج کی رات انبیائے کرام کی نماز کی امامت کرائی تھی‘۔ میں حیران رہ گئ۔ غور سے محراب کو دیکھتی رہی، پھر نوافل کی ادائیگی کی۔ کمرے میں سرخ قالین بچھے تھے اور سامنے لکڑی کے تختوں پر قرآن ِکریم کے نسخے ترتیب سے رکھے تھے۔
’الاقصیٰ القدیم‘ سے نکل کر میں ’قبتہ الصخرة‘ کی طرف چل پڑی۔ قبتہ الصخرة کی عمارت کے دروازے آٹھ بجے کھولے جاتے ہیں۔ اندر داخل ہوئے تو صفائیاں ہو رہی تھیں اور کہیں ویکیوم تو کہیں جھاڑ پونچھ کی جا رہی تھی۔ میں بئر الارواح کی طرف بڑھ گئی جہاں اس وقت سوائے میرے کوئی بھی نہ تھا۔ نوافل ادا کیے اور بوجھل دل اور قدموں کے ساتھ مسجد ِقبلی اور قبتہ الصخرة پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے ہوٹل واپسی کا قصد کیا۔
تل ابیب کے بن گیرین ائیر پورٹ تک پہنچتے پہنچتے ساڑھے نو بج گئے۔ ہوائی اڈے پہنچ کر احساس ہوا کہ عبدالقادر کو ہوائی اڈے جلدی پہنچنے کی کیا پڑی تھی؟۔۔۔سیکورٹی کے نام پر ہمارا بورڈنگ پاس اور پاسپورٹ رکھ کر ہماری ایک ایک چیز کی تفصیلی چیکنگ کی گئی۔
ان تمام مراحل سے فارغ ہو کر ہوائی جہاز کی نشست سنبھالی تو محسوس ہوا کہ دنیا کے اس قدیم شہر یروشلم سے واپسی تو ہو رہی ہے مگر جیسے زندگی کا ایک حصہ یہیں کہیں چھوڑے جا رہی ہوں۔ جہاز آسمان کی وسعتوں میں ہلکورے لینے لگا اور میں بادلوں میں گم ہوتے یروشلم شہر کے اس منظر کو اس وعدے اور امید کے ساتھ اپنی آنکھوں میں سمونے لگی کہ میں ایک مرتبہ پھر یہاں آؤں گی۔ تب تک کے لیے اے شہر ِدلپزیر، الوداع !!

ختم شد۔۔۔

مقام ِموسی علیہ السلام، اریحاء اور بحیرہ ِمردار



قسط نمبر 10 اریحاء جسے انگریزی میں
Jericho
کہا جاتا ہے، پہنچتے پہنچتے سردی کا نام و نشان مٹ چکا تھا بلکہ ہوا میں لُو کی ہلکی ہلکی تمازت محسوس ہونے
لگی اور یہہ دسمبر کے شروع کے دن تھے۔۔۔
گذشتہ سے پیوستہ۔
اگلی صبح سردی زیادہ زور پکڑ چکی تھی مگر ہمیں اس کی پرواہ نہ تھی کیونکہ آج ہماری منزل سطح ِسمندر سے بہت نیچے واقع شہر اریحا اور بحیرہ ِمردار تھا۔ تقریباً دس بجے عبدالقادر آن پہنچا۔ آج گاڑی میں فاطمہ اور عبدالقادر کے جڑواں بیٹے وسیم اور محمود اور پوتا عابد جسے پیار سے عبود کہتے تھے، بھی موجود تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار کیے جانے والے شہر اریحاء کی طرف رواں دواں تھے۔
راستے میں رک کر عبدالقادر نے کھانے پینے کا سامان لیا اور ہم سب لوگ گاڑی میں ہی گویا پکنک منانے لگے۔ بالکل ایسا ماحول جیسے پاکستان میں ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہوئے ہوتا ہے۔ خوش گپیاں، کھانا پینا اور اونچی آواز میں عربی گانے۔ میں نے سوچا عربوں میں اور ہمارے نظامِ خاندان میں کتنی مماثلت ہے۔ عبدالقادر نے بتایا کہ اسکی بہن اریحاء میں رہتی ہے اور یروشلم میں جنم لینے کے باوجود عبدالقادر کی بہن کے لیے یروشلم کے دروازے بند ہیں۔ اس کے پاس اسرائیلی دستاویز نہیں ہے جس کے بوتے پر وہ یروشلم داخل ہو سکے، اسی لیے اب وہ فلسطینی شہر اریحاء میں اپنے خاندان کے ہمراہ زندگی گزار رہی ہے۔
اریحاء جسے انگریزی میں Jericho کہا جاتا ہے، پہنچتے پہنچتے سردی کا نام و نشان مٹ چکا تھا بلکہ ہوا میں لُو کی ہلکی ہلکی تمازت محسوس ہونے لگی اور یہ دسمبر کے شروع کے دن تھے۔ اریحاء سطح ِسمندر سے 846 فٹ نیچے ہے اور دریائے اردن کے کنارے آباد ہے۔ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں یہ شہر اسرائیل کے زیر ِنگیں آگیا مگر 1994ء میں اوسلو معاہدے کی رُو سے اسرائیل نے اس کا قبضہ واپس فلسطین کو دے دیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اریحاء کی آبادی تقریبا 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور اریحاء کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔گو کہ اریحاء کے باشندوں کا ماننا ہے کہ اریحاء ہی دنیا کا قدیم ترین شہر ہے مگر دمشق (شام)، ایتھنز (یونان)، بیروت (لبنان)، الاقصر (مصر)، سکندریہ (مصر)، وارانسی (بھارت) جیسے شہر بھی ’دنیا کے قدیم ترین شہر‘ کے عنوان کے دعوے دار دکھائی دیتے ہیں۔ اریحاء مجھے یروشلم سے قدرے مختلف لگا۔ یہاں پر عمارتوں کا انداز ِتعمیر جدید اور مکین قدرے خوشحال دکھائی دیئے۔
عبدالقادر کی اہلیہ اور بچوں کو ان کی پھوپھی کے گھر اتار کر ہماری اگلی منزل دریائے اردن پر واقع وہ مقام تھا جہاں مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بپتسمہ (غسلِ پاکیزگی) حاصل کیا تھا۔ دریا کے کنارے بہت سے مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں یہاں غوطے لے رہے تھے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق یسوع مسیح نے اس مقام پر یوحنا John the Baptist کے ہاتھوں بپتسمہ حاصل کیا۔ اب دنیا بھر سے مسیحی اس مقام پر آتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں یہاں پر بپتسمہ اور غسل ِتقدیس کرتے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مرقد ِعالیہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مرقد ِعالیہ


ہماری اگلی منزل صحرائے یہودا میں اس جلیل القدر نبی کا مرقد تھا جسے ’کلیم اللہ‘ کا لقب عطا کیا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے بارہا کلام کا شرف نصیب ہوا اور اللہ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزے بھی عطا کیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مرقد ِعالیہ صحرائے یہودا میں یروشلم سے قدرے باہر نکل کر اور بحیرہ ِمردار سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ عبدالقادر نے تنگ سے موڑ پر گاڑی ڈالی اور ہم ایک سادہ سی عمارت کے سامنے پہنچ گئے جس پر ’مسجد و مقام النبی موسی علیہ السلام‘ لکھا تھا۔ دوپہر ہو چلی تھی اور مرقد پر زیادہ لوگ نہیں تھے۔۔۔ عمارت میں داخل ہوکر اندر بائیں جانب واقع مسجد کے اندر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مرقد ہے۔ مسجد کے دروازے پر تالا پڑا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک نوجوان لڑکا آیا جو بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم تھا۔ اس نے مسجد کا تالا کھولا اور ہمیں اندر جانے کی اجازت دی۔ ہم نے نوافل ادا کیے اور فاتحہ پڑھ کر باہر نکل آئے۔
اب ہم بحیرہ ِمردار کی جانب رواں دواں تھے جو کہ سطح ِسمندر سے ایک ہزار فٹ سے بھی نیچے واقع ہے۔۔۔ کہا جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پر حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو عذاب دیا گیا تھا۔ سیاح یہاں بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ ہم بھی نیچے ساحل ِسمندر کے کنارے چل پڑے، یہاں پر موجود سیاح ساحل پر موجود کیچڑ کو اپنی جلد کے لیے اچھا سمجھتے ہیں اور اسکی لیپا پوتی کرکے بحیرہ ِمردار پر بیٹھ کر دھوپ سینکنا پسند کرتے ہیں۔
بحیرہ ِمردار
بحیرہ ِمردار
بحیرہ ِمردار دراصل ایک نمکین جھیل ہے جو اردن، اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ لگتی ہے۔ اس کا نام بحیرہ ِمردار اس نسبت سے پڑا کہ اس 50 کلومیٹر لمبی جھیل میں موجود نمکیات کے باعث کوئی جاندار، چرند و پرند یہاں آباد نہیں ہو سکتا۔ اس جھیل میں موجود نمکیات اسے تیرنے کے لیے ناممکن بنا دیتے ہیں۔ دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں اور سطح آب کے اوپر لیٹے رہنے کا لطف اٹھاتے ہیں۔ ہم نے یہاں پر جلدی جلدی چند تصاویر کھینچیں کیونکہ ذہن میں یہ بات موجود تھی کہ ایسے مقام پر جہاں اللہ کا عذاب نازل ہوا ہو، وہاں سے جلد از جلد نکل جانا ہی بہتر ہے۔
شام کے سائے بڑھتے جا رہے تھے، چار بجے کے قریب عبدالقادر نے گاڑی کا رخ واپس اریحا موڑا جہاں عبدالقادر نے ایک مقامی عرب ہوٹل میں ہمیں عشائیہ دیا۔ کھانا سادہ مگر عمدہ تھا۔ عرب بھی ہماری طرح گوشت خور ہیں اور کباب بہت پسند کرتے ہیں۔ مغرب ہو چکی تھی، فاطمہ نے کچھ خریداری کرنی تھی اور یوں اسی بہانے ہم اریحاء کے مشہور بازار ’سوق اریحا‘ پہنچ گئے۔
اریحاء کے بازار میں ایک ریڑھی فروش فلافل اور چنے بیچتے ہوئے
اریحاء کے بازار میں ایک ریڑھی فروش فلافل اور چنے بیچتے ہوئے

ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم پنڈی کے راجہ بازار میں آگئے ہوں۔ یہاں کی دکانوں کی ایک خاص بات یہاں پر خواتین دکانداروں / سیلز گرلز کی موجودگی تھی جو خالص اور تیز عرب طرز کے میک اپ میں تیار ہو کر، سروں پر دوپٹے پہنے دکانوں میں موجود گاہکوں کے ساتھ بھاؤ تاؤ کر رہی تھیں۔ ایک دکان میں داخل ہوکر اس وقت حیران رہ گئی جب فلسطینی دکاندار کو بالی وڈفلم دیکھنے میں مگن پایا۔ پوچھا، ’ہندی فلمیں پسند ہیں؟‘ تو آگے سے جواب آیا، ’جی ہاں، اور بریانکا شوپرا (پریانکا چوپڑا) میری پسندیدہ فنکارہ ہے‘۔ ایک دکان میں تو پاکستان کا مشہور سرمہ بھی دکھائی دیا۔ جگہ جگہ چھابڑیوں اور ریڑھیوں پر اسی طرح فلافل، شاورمے اور مختلف انواع و اقسام کے کھانے دکھائی دئیے جیسا کہ پاکستان میں دکھائی دیتے ہیں۔
رات کے تقریبا نو بجے ہم نے واپس یروشلم کی راہ پکڑی۔ ابھی ہوٹل جا کر سامان بھی پیک کرنا تھا کہ اگلے روز دوپہر کو بارہ بجے ہم نے اس شہر ِبے مثال کو الوداع کہہ کر واپس امریکہ کی راہ لینی تھی۔
جاری ہے۔

فلسطین کا دوسرا بڑا شہر ’الخلیل‘




قسط نمبر 9 ۔۔۔ اسلامی عقیدے کے مطابق الخلیل کو مکہ ِمکرمہ، مدینہ ِمنورہ اور یروشلم کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے چوتھا مقدس ترین شہر مانا جاتا ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔

بیت اللحم سے نکلتے نکلتے ڈھائی بج گئے، سورج بادلوں کی اوٹ میں ہو گیا اور بادل تھوڑے ہی دیر میں جم کر برسنے لگے۔ اب ہمارا رخ Hebron کے تاریخی شہر کی طرف تھا جسے عربی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے الخلیل کہا جاتا ہے۔ بیت اللحم سے الخلیل کا فاصلہ یوں تو 14 میل کا ہے مگر بارش اور سڑک پر گاڑیوں کے شدید رش کی وجہ سے یہ فاصلہ ایک گھنٹے سے زائد مسافت پر پھیل گیا۔
’الخلیل‘، غزہ کے بعد فلسطین کا دوسرا بڑا شہر ہے اور مسلمانوں کے لیے بے حد محترم بھی کہ یہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحقٰ علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے مراقد ِعالیہ ہیں۔ اسلامی عقیدے کے مطابق الخلیل کو مکہ ِمکرمہ، مدینہ ِمنورہ اور یروشلم کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے چوتھا مقدس ترین شہر مانا جاتا ہے۔
تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم ایک تنگ سی گلی میں موجود تھے۔ یروشلم اور بیت اللحم کے قدیمی شہروں کی طرح الخلیل کے اندرون شہر کی گلیاں بھی تنگ تھیں اور بارش کے پانی کی وجہ سے سڑکوں پر کیچر بھی پھیلا تھا۔ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقبرے کے قریب ہی گاڑی کھڑی کی اور حاضری دینے چل پڑے۔ دو گلیوں بعد ایک دیوار پر لگی تختی پر ’مقبرہ سید ابراہیم‘ لکھا تھا۔ بیس تیس سیڑھیاں چڑھ کر ہم ’مسجد ِابراہیمی‘ میں داخل ہو گئے۔
بی بی سارہ کا روضہ
بی بی سارہ کا روضہ

اندر داخل ہو کر پہلی نظر بی بی سارہ کے مرقد پر پڑتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ تھیں۔ یہاں سے نکل کر مسجد میں داخل ہو کر حضرت اسحقٰ علیہ السلام اور انکی اہلیہ کی قبور ِمبارکہ دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں سے دائیں ہاتھ پر اندر کی جانب ایک کمرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مرقدِ عالیہ موجود ہے۔
حضرت اسحقٰ علیہ السلام کا مرقد
حضرت اسحقٰ علیہ السلام کا مرقد
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علامتی قبر
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علامتی قبر

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو تعویذ (اصل قبر پر بنائی گئی قبر) دکھائی دیتا ہے، وہ دراصل علامتی قبر ہے اور یہاں مدفون انبیائے علیہ السلام اور ان کی ازواج کی اصل قبور ایک غار میں تقریبا 40 فٹ کی گہرائی میں ہیں جہاں کسی کی رسائی نہیں اور مقامی اسلامی ’وقف‘ کی جانب سے غاروں میں موجود ان قبور کو ان معزز ترین ہستیوں کے احترام کی وجہ سے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ البتہ ایک چھوٹی سی جالی کے ذریعے نیچے غار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہودی عقیدے میں اس مقام کو Cave of Patriarchs کہا جاتا ہے۔ یہودیت میں یروشلم کے بعد اس مقام کو مقدس ترین مانا جاتا ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں ہی یہ قطعہ ِاراضی اپنے مدفون ہونے کے لیے حاصل کر لی تھی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقبرہ یا مسجد ِابراہیمی دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ مسجد جبکہ دوسرا حصہ سیناگاگ یا یہودیوں کی عبادت گاہ ہے جہاں پر صرف یہودیوں کو داخلے کی اجازت ہے۔ بہت کوشش کے باوجود ہمیں سیناگاگ میں جانے کی اجازت نہیں ملی۔ اسرائیلی چیک پوسٹ پر تعینات فوجیوں کا کہنا تھا کہ مسلمان اپنی مسجد میں یہودیوں کو نہیں آنے دیتے اسی لیے ہمارے سیناگاگ میں مسلمانوں کا داخلہ منع ہے۔
25 فروری 1994ء کو ایک امریکی اسرائیلی آبادکار باروچ گولڈسٹین نے رمضان کے مہینے میں جمعے کے روز نماز ِفجر کے وقت مسجد میں گھس کر مسلمانوں پر گولیاں برسائی تھیں جس کے نتیجے میں 29 فلسطینی مسلمان ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
اسی واقعے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مرقد کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان مسجد اور سیناگاگ میں بلٹ پروف شیشے کی دیواروں سے ذریعے تقسیم کر دیا گیا۔۔۔ سال میں دس دن ایسے ہیں جب یہودی مسلمانوں کے حصے میں اور مسلمان سیناگاگ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
ہمارے پاس وقت کی کمی تھی، ورنہ جی چاہتا تھا کہ الخلیل کے اس تاریخی شہر کے فلسطینی باشندوں سے ملاقات کی جائے۔۔۔ الخلیل شہر کو 1994ء میں ’اوسلو معاہدے‘ کے بعد دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ H1 جو کہ فلسطین جبکہ H2 اسرائیلی حکام کے زیر ِانتصام ہے اور تقریبا شہر کا 20٪ علاقہ H2 کا حصہ ہے۔
اس شہر کی ہوا میں ایک بوجھل پن نمایاں ہے اور مقامی چہروں پر خوف واضح دکھائی دیتا ہے۔۔۔ یہودی آبادکاری اور بے تحاشا سیکورٹی کے باعث مسلمانوں کے لیے یہاں پر کاروباری مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جبکہ ہر کچھ عرصے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں اور خونریزی کے واقعات یہاں پر آج بھی معمول کی بات ہیں۔

مغرب کے لگ بھگ ہم مسجد ِابراہیمی پر الوداعی نظر ڈال کر باہر نکلے تو بھوک زوروں پر چمک رہی تھی۔۔۔ عبدالقادر ہمیں الخلیل میں عرب مٹھائی کی ایک بہت مشہور دکان ’پیراڈائز سوئیٹس‘ پر لے گیا جہاں میں نے زندگی کا بہترین ’کُنافہ‘ کھایا۔
مشہور عرب مٹھائی ’کُنافہ‘
مشہور عرب مٹھائی ’کُنافہ‘

بارش ہنوز برس رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ آج رات بارش کا رکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ٹھنڈ بھی بڑھ چکی تھی۔ آج کا دن خاصا طویل ہو چلا تھا اور تھکن سے حالت غیر ہو چلی تھی، ہوٹل پہنچتے پہنچتے دس بج گئے۔

جاری ہے۔۔۔

Wednesday, 22 March 2017

بیت اللحم، دھیشہ کیمپ اور اسرائیل فلسطین مغربی کنارے کی دیوار

 بیت اللحم (فلسطین) میں اسرائیل فلسطین مغربی کنارے کی دیوار پر
 بیت اللحم (فلسطین) میں اسرائیل فلسطین مغربی کنارے کی دیوار پر

قسط نمبر 8۔۔۔ دیوار پر لگے پوسٹرز میں فلسطینیوں نے مختصر کہانیوں میں بیان کیا ہے کہ کس طرح یہ دیوار ان کی زندگیوں کو تقسیم کرنے کا سبب بنی اور کیسے دیوار کے اِس پار رہنے والے لوگ دیوار کے اُس پار رہنے والے اپنے خاندانوں سے ملنے سے قاصر ہیں۔
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
آج ہماری منزل عیسائیت کا مقدس شہر ’بیت اللحم‘ اور اسلام کے لیے مقدس شہروں میں سے ایک ’الخلیل‘ تھا۔ ٹھیک گیارہ بجے عبدالقادر پہنچ چکا تھا۔ عبدالقادر کی وقت کی پابندی کی عادت قابل ِتعریف اور عرب ثقافت سے یکسر مختلف تھی۔ باہر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اور یوں معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے بادل اب برسے کہ تب۔
’پہلے بیت اللحم چلتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ہم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مرقد پر جائیں گے۔ امید ہے کہ ہمیں عصر کی نماز وہاں مل جائے گی‘، عبدالقادر آج کے دن کا پلان بتا رہا تھا۔بیت اللحم یروشلم کے جنوب اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر واقع شہر ہے جس کی آبادی تقریبا 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور یہاں کی معیشت کا انحصار سیاحت پر ہے۔
فلسطینی حدود میں داخل ہوتے ہوئے تنبیہی بورڈ
فلسطینی حدود میں داخل ہوتے ہوئے تنبیہی بورڈ
اسرائیلی حدود سے نکلتے ہوئے اور فلسطینی علاقے میں داخل ہوتے ہوئے جگہ جگہ سرخ رنگ کے بورڈ لگائے گئے ہیں جن پر تنبیہ درج ہے کہ آپ اسرائیلی علاقہ چھوڑ کر فلسطینی علاقے میں داخل ہو رہے ہیں۔یہودیوں کو قانونا ً فلسطینی شہروں اورعلاقوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح فلسطینی اسرائیل کے زیر ِانتظام علاقوں اور شہروں میں داخل نہیں ہوسکتے۔
ہم ابھی بیت اللحم سے دس پندرہ منٹ کی دوری پر تھے کہ عبدالقادر نے ہمیں بتایا، ’’یہ سامنے’مخیم الدھیشہ‘ ہے یعنی دھیشہ ریفیوجی کیمپ جہاں فلسطینی کئی نسلوں سے آباد ہیں۔ یہ کیمپ 1949ء میں عرب اسرائیل جنگ کے نیتجے میں یروشلم اور الخلیل کے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے ایک عارضی مقام کے طور پر آباد کیا گیا تھا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ کے نیتجے میں اس کیمپ کا انصرام اسرائیل کے پاس آگیا۔ مگر 1995ء سے فلسطینی حکام اس کیمپ کو سنبھالتے ہیں‘‘۔
دھیشہ کیمپ میں ایک معمر فلسطینی خاتون سبزیاں بیچتے ہوئے
دھیشہ کیمپ میں ایک معمر فلسطینی خاتون سبزیاں بیچتے ہوئے

اس آبادی میں عمارتوں کی مخدوش حالت اس کیمپ کے مکینوں کی غربت کا پتہ دے رہی تھی۔ میں نے عبدالقادر سے کچھ دیر ٹھہرنے کا کہا۔ جس گلی میں ہم رکے وہاں ایک اونچی سی مسجد تھی جس کے آگے معمر فلسطینی بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے، جیسے ہمارے گلی محلوں میں گئے وقتوں میں بزرگ اکٹھے ہو جایا کرتے تھے۔ ایک نکڑ پر ضعیف عورت سبزیوں کی چھابڑی سنبھالے بیٹھی تھی۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی دکان میں تازہ فلافل (عربی پکوڑے) تیار کیے جا رہے تھے۔ پاس میں ہی ایک اور دکان تھی جہاں فلافل اور شاورمے بن رہے تھے۔ یہ دکان ایک عرب نوجوان خاتون چلا رہی تھیں، مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ میں نے کوشش کی کہ دکان کے اندر جا کر خاتون سے ویڈیو پر کچھ بات کر سکوں یا تصویریں بنا سکوں مگر جواں سال عرب خاتون اس بات پر آمادہ نہ تھیں۔
ہمیں دیکھ کر چند دیگر فلسطینی خواتین بھی دکان میں داخل ہو گئیں۔ یہ جان کر کہ میں صحافی ہوں اور پاکستانی بھی، ایک معمرعرب خاتون آگے بڑھی اورعربی میں کچھ کہنے لگی۔ غالبا دعائیں دے رہی تھی۔ پھر اس نے مجھ سے کوئی سوال کیا، جو پاس کھڑی نوجوان عرب خاتون نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں سمجھایا، ’کیا تم مسجد ِاقصیٰ گئی ہو؟‘ ۔ میں نے جواب دیا کہ، ’ہاں‘۔تو اس عرب خاتون کے چہرے پر بیک وقت خوشی اور اداسی کا رنگ ٹھہر گیا، یکایک اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور وہ میرا ہاتھ تھامے کتنی ہی دیرعربی میں کچھ کہتی رہی اور زار و قطار روتی رہی۔ نوجوان عرب خاتون نے بتایا، ’یہ کہہ رہی ہیں کہ تم خوش قسمت ہو کہ امریکہ سے آکر مسجد ِاقصیٰ ہو آئیں‘۔

ہاں سے نکل کر ہم کچھ ہی فاصلے پر اس دیوار کی جانب چل پڑے جو اسرائیل اور فلسطین کو تقسیم کرتی ہے جسے Israeli West Bank Barrier یا مغربی کنارے کو تقسیم کرنے والی دیوار کہا جاتا ہے۔ 440 میل طویل اس دیوار کو اسرئیل ’سیکورٹی بیرئیر‘ جبکہ فلسطینی ’نسلی تعصب پر مبنی رکاوٹ‘ قرار دیتے ہیں یہ دیوار ستمبر 2000ء میں اس وقت بنائی گئی جب اسرائیلی جنرل ایریل شیرون (جو مارچ 2001ء میں اسرائیل کے وزیرِاعظم بھی بنے) نے الحرم الشریف (جسے یہودی Temple Mount کہتے ہیں) کا دورہ کیا۔ اس واقعے کے بعد فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تشدد اور ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔
اسرائیل فلسطین مغربی کنارے کی دیوار پر لگا ایک پوسٹر
اسرائیل فلسطین مغربی کنارے کی دیوار پر لگا ایک پوسٹر

ہم اب بیت اللحم میں تھے اور اس دیوار کے نقطہ ِآغاز پر کھڑے تھے۔ دیوار پر جا بجا تصویری اور گرافیٹی کی گئی ہے۔ دیوار پر بہت سے ایسے پوسٹر لگائے گئے ہیں جس پر فلسطینیوں نے مختصر کہانیوں میں بیان کیا ہے کہ کس طرح یہ دیوار ان کی زندگیوں کو تقسیم کرنے کا سبب بنی اور کیسے دیوار کے اِس پار رہنے والے لوگ دیوار کے اُس پار رہنے والے اپنے خاندانوں سے ملنے سے قاصر ہیں۔
بیت اللحم میں کنیستہ المہد کے باہر۔ مسیحی عقیدے میں اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش مانا جاتا ہے
بیت اللحم میں کنیستہ المہد کے باہر۔ مسیحی عقیدے میں اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش مانا جاتا ہے

کچھ دیر یہاں رکنے کے بعد ہم کنیستہ المہد یا Church of Nativity پہنچے جسے مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش مانتے ہیں۔میں اس قطار کا حصہ بن گئی جو چرچ میں داخل ہو رہی تھی۔عیسائی خواتین نے اپنے سر ڈھانپ رکھے تھے۔ اندر داخل ہو کر نیچے تہہ خانے کی طرف اندھیری سیڑھیاں اس مقام کی طرف لے جاتی ہیں جسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مسیحی یہاں ماتھا ٹیک رہے تھے اور اس جگہ کو چوم رہے تھے۔ تصویریں کھینچنے اور عقیدت کا اظہار کرنے کے بعد لوگ عقبی دروازے سے باہر کی طرف نکل رہے تھے۔
چرچ سے نکل کر ہم قریبی چوک ’میدان المھد‘ جسے Manger Square کہا جاتا ہے کی طرف چل پڑے، یہ بیت للحم کا اہم سیاحتی مرکز ہے جہاں تنگ گلیوں میں ایک بڑے بازار کے آباد ہونے کے ساتھ اس شہر کی واحد اور سب سے قدیم مسجد ’مسجد ِعمر‘ واقع ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے یروشلم فتح کرنے کے بعد 637 سن ِعیسوی میں بیت اللحم کا دورہ کیا تھا اور وہاں کی مسیحی آبادی کو یقین دلایا تھا کہ ان کے حقوق اور حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔
بازار میں کپڑے، جوتوں سے لے کر کھانے پینے اور شہر کے یادگاری تحفوں سمیت بہت سی دکانیں موجود تھیں۔ہم نے صراف کی دکان سے سو ڈالر تڑوائے جس کے ہمیں تین سو بہتر شیکلز ملے۔ فلسطین میں دکانداروں سے آپ پاکستان کے دکانداروں کی طرح بھاؤ تاؤ کر سکتے ہیں۔ اور دکاندار کچھ ہی دیر میں دام اپنے بتائے ہوئے دام سے بہت کم کر دیتے ہیں۔ کشمیر سے پشمینہ کا بنا ہوا ایک سکارف جس کی قیمت مجھے دکاندار نے تیس شیکلز بتائی تھی، آخر میں پندرہ شیکلز کا خریدا۔ یہاں پر دکاندار مقامی شیکلز اور امریکی ڈالر دونوں قبول کر لیتے ہیں۔

بیت اللحم سمیت پورے فلسطین اور اسرائیل کی ایک خاص سوغات انار کا رس ہے، جو ہر دوسری تیسری گلی میں کسی نہ کسی ٹھیلے پر آپ کو دکھائی دیتا ہے۔ دس شیکلز میں انار کے جوس کا گلاس ہمیں تازہ دم کرنے کو کافی تھا کہ ابھی ہمارا آدھا سفر باقی تھا اور ہم نے اب فلسطینی شہر ’الخلیل‘ کا رخ کرنا تھا۔۔۔
جاری ہے۔۔۔

Monday, 20 March 2017

دیوار ِگریہ یا مغربی دیوار

 مرد حضرات دیوار ِگریہ پر عبادت میں مصروف
 مرد حضرات دیوار ِگریہ پر عبادت میں مصروف
قسط نمبر 7 ۔۔۔ مردوں کے حصے میں غلغلہ زیادہ تھا۔ مرد حضرات اونچی آواز میں عبادت کر رہے تھے اور رو رہے تھے۔ مردوں کی اکثریت نے سفید کپڑے سے اپنے سر اور چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ وہ دیوار کے ساتھ گم سم کھڑے تھے اور دیوار کو چوم رہے تھے۔۔۔

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
ہماری اگلی منزل یہودیوں کی دیوار ِگریہ تھی۔ وسیم حارة النصاریٰ کی پرپیچ گلیوں سے ہوتا ہوا مجھے دیوار ِگریہ تک لے گیا۔ دیوار ِگریہ کے باہر سیکورٹی کے انتظامات مسجد ِاقصیٰ اور کنیستہ القائمہ کی نسبت کہیں زیادہ تھے۔ دیوار ِگریہ داخل ہوتے وقت سیدھے ہاتھ پر مسجد ِاقصیٰ کا مٹیالا گنبد دکھائی دیتا ہے۔ یہاں مردوں اور خواتین کے داخلے کے الگ الگ مقامات ہیں۔ آپ کا سامان سکینر سے گزارا جاتا ہے اور سامان کی تلاشی بھی لی جاتی ہے۔
دیوار ِگریہ میں داخل ہوتے ہوئے
دیوار ِگریہ میں داخل ہوتے ہوئے
دیوار ِگریہ میں خواتین کے حصے کے باہر
دیوار ِگریہ میں خواتین کے حصے کے باہر
تلاشی کے مرحلے سے فارغ ہو کر اندر داخل ہوئی تو کچھ قدموں کے بعد سیدھے ہاتھ پر یہودیوں کی مشہور دیوار ِگریہ موجود تھی۔ میں سیدھی چلتی رہی اور وہاں پہنچ کر رک گئی جہاں خواتین عبادت میں مشغول تھیں۔ یہودی اس دیوار کو ’کوتل‘ یا مغربی دیوار کہتے ہیں۔ دیوار ِگریہ میں خواتین اور مرد حضرات کی عبادت کے لیے الگ حصے مختص کیے گئے ہیں۔ سیدھے ہاتھ پر خواتین جبکہ بائیں ہاتھ پر یہودی مرد حضرات عبادت کرتے ہیں۔ بیچ کا حصہ رکاوٹ لگا کر بند کیا گیا ہے۔
دیوار ِگریہ دراصل یہودیوں کے لیے Temple Mount کی نسبت سے محترم ہے اور ہیکل ِسلیمانی کی بچی ہوئی نشانی ہے۔ ہیکل ِسلیمانی کی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں شروع ہوئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ختم ہوئی۔ اور اسی نسبت سے اسے ہیکل ِسلیمانی کہا گیا۔ روایات کے مطابق روم اور یہودیوں کی پہلی بڑی جنگ میں یروشلم پر قبضے کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی کے باوجود یہ دیوار تباہی سے بچ گئی تھی۔
دیوار ِگریہ
دیوار ِگریہ
یروشلم پر قبضے کے بعد رومیوں نے یہودیوں کو یروشلم سے بے دخل کر دیا اور انہیں بہت کم یہاں آنے کا موقع دیا جاتا تھا۔ یہودی اس صورتحال پر دل گرفتہ اور شدید افسردہ تھے اور جب بھی آتے اس دیوار سے لپٹ کر روتے اور گریہ و زاری کرتے تھے اور اسی نسبت سے اس دیوار کو دیوار ِگریہ کا نام دیا گیا جبکہ یہودی اسے مغربی دیوار کہتے ہیں۔
میں خواتین والے حصے میں ایک کرسی سنبھال کر بیٹھ گئی اور یہودی خواتین کو انکی دیوار مقدس پر عبادت کرتا دیکھنے لگی۔ بہت سی خواتین دیوار سے لگی کھڑی منہ میں کچھ کلمات ادا کر رہی تھیں اور چند خواتین رو بھی رہی تھیں۔ بہت سی خواتین نے اس جگہ کے تقدس کی مناسبت سے اپنے سروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ میں نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے جلدی سی کچھ تصویریں کھینچیں اور ایک دو ویڈیو کلپس بھی بنا ڈالے۔ ابھی ہاتھ اوپر کرکے مردوں کے حصے کی تصویریں بنانے میں مصروف تھی کہ کسی نے پیچھے سے میری کمر پر زور کا ہاتھ مارا۔ حیران ہو کر پلٹی، تو ایک معمر یہودی خاتون نے غصے سے کہا، ’آپ تصویریں نہیں کھینچ سکتیں۔ میں حیران رہ گئی، ’مگر کیوں؟‘ ۔ ’کیونکہ آج شابات ہے‘۔ تو گویا ہفتے کے روز نہ صرف گرم کھانا منع ہے بلکہ دیوار ِگریہ پر تصاویر کھینچنا بھی ممنوعات میں سے ہے۔
دیوار ِگریہ بڑے بڑے پتھروں پر مشتمل ہے جن کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ ہے اور درزیں بنی ہوئی ہیں۔ یہودی انہی درزوں میں اپنی دعائیں اور مرادیں اس یقین کے ساتھ رکھتے ہیں کہ اس مقدس مقام کی برکت سے وہ دعائیں قبول ہوں گی۔ یہ رواج تقریبا تین سو برس پرانا ہے۔ میرے سامنے بہت سی خواتین اپنے ہاتھوں میں پکڑی دعاؤں کی عرضیاں ان درزوں میں اُڑس رہی تھیں۔ سال میں دو مرتبہ ان درزوں کی صفائی کی جاتی ہے، دعاؤں کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور انہیں جبل الزیتون میں دفنا دیا جاتا ہے۔
مردوں کے حصے میں غلغلہ زیادہ تھا۔ مرد حضرات اونچی آواز میں عبادت کر رہے تھے اور رو رہے تھے۔ بہت سے مردوں نے سفید کپڑے سے اپنے سر اور چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ وہ دیوار کے ساتھ گم سم کھڑے تھے اور دیوار کو چوم رہے تھے۔ یہاں بھی مرد حضرات عقیدت سے اپنی دعائیں درزوں میں بھر رہے تھے۔ جو یہودی دیوار ِگریہ تک نہیں پہنچ پاتے وہ مختلف ویب سائیٹس کے ذریعے نذرانے کے ہمراہ اپنی دعائیں بھیجتے ہیں، جنہیں ان کے ایماء پر دیگر یہودی یہاں آکر درزوں میں اُڑس دیتے ہیں۔
اچانک میری نظر شلوار قمیض میں ملبوس چند خواتین پر پڑی جو دیوار ِگریہ کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ معلوم ہوا یہ بھارت سے تعلق رکھنے والی یہودی خواتین تھیں۔ خواتین اپنی عبادت مکمل ہونے کے بعد الٹے قدموں پیچھے کی طرف جا رہی تھیں تاکہ دیوار کی طرف پیٹھ نہ ہو۔ گویا یہ بھی دیوار کی تعظیم کا ایک انداز تھا۔
مغرب کا وقت ہو چلا تھا۔ میں نے دیوار ِگریہ پر ایک الوداعی نظر ڈالی اور باہر نکل پڑی۔ اندھیرا پھیلنے لگا تھا، مجھے آسمان پر تین ستاروں کا بے صبری سے انتظار تھا تاکہ چائے پی کر اپنے ہوش بحال کر سکوں۔ یوں باہر کی طرف چل پڑی جہاں عبدالقادر منتظر کھڑا تھا۔
جاری ہے ۔۔۔

Saturday, 18 March 2017

'شابات' اور مسیحیوں کا مقدس ترین مقام 'کنیستہ القائمہ'

 کنیستہ القائمہ کے باہر
 کنیستہ القائمہ کے باہر
قسط نمبر 6 ۔۔۔ سوچا، نیچے واقع بن یہودا مارکیٹ جاتی ہوں وہاں کسی نہ کسی کیفے میں چائے یا کافی کی ایک پیالی تو مل ہی جائے گی۔ مگر ہائے رے قسمت، دس پندرہ منٹ تک اکا دکا کھلے ہوئے کیفے اور کافی شاپ سے گرم چائے اور کافی کے سوال پر صرف ’گھوریاں‘ اور سخت لہجے میں ’آج شابات ہے‘ جیسے جواب ہی میسر آئے۔

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
اگلی صبح نماز ِفجر کی ادائیگی کے بعد ہوٹل واپسی پر کچھ دیر کمر سیدھی کرنے کا ارادہ تھا۔ عبدالقادر کو بتایا کہ وہ آرام سے دوپہر میں آئے۔ ہفتے کے روز یروشلم ویسے بھی قدرے سکون میں ہوتا ہے۔ پچھلی قسط کے آخر میں ’شابات‘ یا ’یوم السبت‘ کا ذکر ہوا تھا، اسی کی مناسبت سے یہودیت میں ہفتے کا روز آرام اور عبادت کا دن مانا جاتا ہے۔
شابات والے روز کا ناشتہ
شابات والے روز کا ناشتہ
کوئی نو بجے کے قریب میں ہوٹل کی پہلی منزل پر واقع ریسٹورنٹ پہنچی جہاں صبح سات سے دس بجے تک ناشتے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ چائے بنانے کے لیے چائے اور کافی کی مشین کی طرف بڑھی تو پتہ چلا کہ مشین بند ہے۔ بیرے سے پوچھا کہ ’کیا مشین خراب ہے؟‘ تو آگے سے جواب ملا، ’نہیں، آج شابات ہے‘۔ ’ہیں؟ شابات ہے، کیا مطلب؟‘۔ بیرے نے حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا، ’آج شابات ہے، آج کے روز کوئی گرم چیز کھائی پی نہیں جا سکتی‘۔ میں نے میز پر نظر دوڑائی، تمام ایسے کھانے تھے جنہیں تازہ نہیں پکایا گیا تھا یا جنہیں چولہے پر گرم نہیں کیا گیا تھا۔ میز زیادہ تر پھل، مچھلی، پنیر، زیتون، سلاد، ڈبل روٹی، کارن فلیکس، ٹھنڈے دودھ اور کیک پیسٹری سے سجائی گئی تھی۔ ’شابات‘ میں جمعے کی شب سے لے کر ہفتے کی شب تک یہودیوں کے چولہے ٹھنڈے رہتے ہیں اور کچھ نہیں پکایا جاتا اور نہ ہی کوئی چیز مائیکروویو میں گرم کی جا سکتی ہے۔ مجھے اس اصول نے کچھ چکرا دیا کہ کھانے کی قربانی تو ٹھیک ہے مگر چائے؟ چائے کے بغیر دن کیسے گزرے گا؟۔ سوچا، نیچے واقع بن یہودا مارکیٹ جاتی ہوں وہاں کسی نہ کسی کیفے میں چائے یا کافی کی ایک پیالی تو مل ہی جائے گی۔ مگر ہائے رے قسمت، دس پندرہ منٹ تک اکا دکا کھلے ہوئے کیفے اور کافی شاپ سے گرم چائے اور کافی کے سوال پر صرف ’گھوریاں‘ اور سخت لہجے میں ’آج شابات ہے‘ جیسے جواب ہی میسر آئے۔
شابات والے روز کا ناشتہ
شابات والے روز کا ناشتہ

ہمیں چائے کی یہ قربانی ہفتے کی شب اس وقت تک دینا تھی جب تک کہ آسمان پر تین ستارے نہیں ظاہر ہو جاتے، جس کے بعد شابات توڑا جاتا ہے۔ روایتی طور پر شابات پر موم بتیاں جلائی جاتی ہیں اور دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ آج ہمیں مسیحی مذہب میں عقیدت کا نشان سمجھے جانے والے کنیستہ القائمہ اور یہودیوں کی دیوار ِگریہ جانا تھا۔
تقریبا ساڑھے گیارہ بجے ہم ہوٹل سے قدیم یروشلم کے لیے نکلے۔ آج بھی مجھے عبدالقادر کے بیٹے وسیم کی سفری رہنمائی میسر تھی۔ ہماری پہلی منزل کنیستہ القائمہ تھا جو کہ یروشلم کے قدیم شہر کے ’حارہ النصاری‘ یا ’کرسچن کوارٹر‘ میں واقع ہے۔ حارہ النصاریٰ کو کنیستہ القائمہ کے ارد گرد آباد کیا گیا تھا۔ آج یہاں قدیم یروشلم کے دیگر کوارٹرز کی طرح بازار آباد ہے جس میں طرح طرح کی دکانیں، کیفے اور ریسٹورنٹس وغیرہ موجود ہیں۔ اور اسی بازار سے ہوتے ہوئے ایک تنگ گلی کے اختتام پر ایک دروازے سے اندر داخل ہو کر آپ کے سامنے کنیستہ القائمہ کی عمارت آن موجود ہوتی ہے۔ وہی عمارت جہاں عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا۔
وہ راستہ جہاں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کنیستہ القائمہ تک لایا گیا، جبل الزیتون میں کلیسہ الآلام سے شروع ہو کرکنیستہ القائمہ پر ختم ہوتا ہے، یہ راستہ Via Dolorosa اور عربی میں ’طریق الالام‘ کہلاتا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’شاہراہ ِالم‘ یا ’شاہراہ ِکرب‘ کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ طریق الالام کے چودہ پڑاؤ ہیں اور ہر پڑاؤ کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس راستے سے گزرنے اور دشواریوں کی کوئی المناک کہانی منسلک ہے۔ مثال کے طور پر روایات کے مطابق پہلا پڑاؤ وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت کی سزا سنائی گئی اور رومی سپاہیوں نے آپ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ دوسرے پڑاؤ پر حضرت عیسیٰ کو بھاری صلیب تھمائی گئی اور ان کے سر پر کانٹوں کا تاج پہنایا گیا۔ جناب ِمسیح علیہ السلام نے صلیب اپنی کمر پر لاد کر تقریبا چھ سو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا۔ تیسرا پڑاؤ وہ مقام ہے جہاں جناب ِمسیح علیہ السلام پہلی مرتبہ نڈھال ہو کر گر پڑے تھے۔ چوتھا پڑاؤ وہ مقام تھا جہاں بی بی مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ملاقات ہوئی، آٹھویں پڑاؤ پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے نیک خواتین کے ایک گروہ کو جو آپ کی پیروکار تھیں، رک کر مختصر درس دیا تھا۔ آخری پانچ پڑاؤ کنیستہ القائمہ میں موجود ہیں۔

وقت کی تنگی کے باعث میں طریق الالام کے اس راستے پر نہ جا سکی جہاں سے جناب ِمسیح علیہ السلام گزرے تھے۔ ہم حارة النصاریٰ سے ہوتے ہوئے کنیستہ القائمہ جا پہنچے جہاں سیکورٹی کے انتظامات مسجد ِاقصیٰ اور دیوار ِگریہ کی نسبت بہت کم تھے۔ تینوں ابراہیمی مذاہب کے یہ تین تاریخی مقامات یعنی مسجد ِاقصیٰ، کنیستہ القائمہ اور دیوار ِگریہ ایک کلومیٹر کے اندر اندر واقع ہیں۔ تینوں کی تاریخ جدا اور تینوں کے پیروکار مختلف۔ مگر یروشلم کے اس قدیم شہر نے ابراہیمی مذاہب کے ان تین مراکز کو ایک ساتھ باندھ رکھا ہے۔
وہ صلیب جہاں مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دفنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا
وہ صلیب جہاں مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دفنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا
کنیستہ القائمہ میں داخل ہوں تو پہلی نظر ایک بڑے سےگلابی رنگ کے پتھر پر پڑتی ہے جسے انگریزی میں Stone of Anointing کہا جاتا ہے۔ عیسائی عقیدے کے مطابق یہی وہ مقام ہے جہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے جسد ِخاکی کو دفنانے کے لیے تیار کیا گیا۔ عیسائی عقیدت مند اس مقام پر غم سے نڈھال ہو کر پتھر کو چوم رہے تھے۔
وہ مقام جہاں بی بی مریم اور دو خواتین نے مل کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دفن ہوتا دیکھا
وہ مقام جہاں بی بی مریم اور دو خواتین نے مل کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دفن ہوتا دیکھا


یہاں سے بائیں ہاتھ کو جائیں تو وہ مقام آتا ہے جہاں بی بی مریم نے اپنی بہن اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیروکار خاتون جن کا نام تاریخ مریم میگدالین بتاتی ہے کے ہمراہ سیدنا مسیح علیہ السلام کو دفن ہوتے دیکھا تھا۔ اسے انگریزی میں The Chapel of Three Marys اسی نسبت سے کہا جاتا ہے۔ مسیحی اس جگہ پر اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے موم بتیاں جلاتے ہیں۔

یہاں سے قدرے فاصلے پر وہ مقام ہے جہاں مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دفن کیا گیا تھا چونکہ دوپہر کا وقت تھا اس لیے مرقد کے اندر جانے والی قطار لمبی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں باری آگئی، اس مرقد میں مسیحی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر گزرے رنج و الم کو محسوس کرتے ہوئے گریہ و زاری کرتے ہیں۔
کنیستہ القائمہ سے نکلے تو دوپہر ڈھل رہی تھی۔ وسیم حارة النصاری کے بازار میں موم بتیوں کی ایک دکان کے سامنے کھڑا میرا منتظر تھا۔ وسیم اپنے باپ کی طرح خوش اخلاق ہے اور مستقبل میں یروشلم میں ایک بڑی ٹور گائیڈ فرم کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس شہر میں عرب مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت اسی کام سے منسلک ہے۔ ’کہیئے، کیسا لگا آپ کو کنیستہ القائمہ؟‘ وسیم نے مسکرا کر پوچھا۔ ’اچھا لگا، کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ایک ہی پیغمبر سے دو مذاہب کے دو مختلف رشتے ہیں۔ اور انہی دونوں رشتوں کی ایک جھلک میں اندر دیکھ کر آئی ہوں۔ مسیحی، جن کے لیے اس جگہ پر حاضری حج ِبیت اللہ کے متوازی حیثیت رکھتی ہے۔ اور مسلمان، جو یہ نہیں مانتے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا‘۔
جاری ہے۔۔۔

Friday, 17 March 2017

’جبل ِالزیتون‘، ’بی بی مریم کا مرقد‘ اور یروشلم کی گلیاں

 جبل ِزیتون سے قبتہ الصخرہ کا منظر
 جبل ِزیتون سے قبتہ الصخرہ کا منظر
قسط نمبر 5 ۔۔۔ جبل الزیتون وہ مقام یا پہاڑ ہے جو یروشلم شہر کو صحرائے یہودا سے الگ کرتا ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے سے مشرقی سرحد کے طور پر یروشلم کی نگہبانی کرتا چلا آ رہا ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
نماز ِجمعہ سے فراغت کے بعد میں فاطمہ کے ہمراہ نمازیوں کے پیچھے چل پڑی جو مسجد ِاقصیٰ کے احاطے سے باہر نکل رہے تھے۔ باہر بہت رونق لگی تھی، چھابڑی اور پھل فروش قدم قدم پر دکانیں سجائے بیٹھے تھے اور گاہکوں کے انتظار میں تھے۔ نمازی اپنی اپنی ضرورت کے مطابق گھر جانے سے پہلے کسی چھابے سے خُبز (عربی روٹی) خرید رہے تھے تو کہیں پھل کی خریداری کی جا رہی تھی۔۔۔ میرے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ نہ صرف مرد حضرات بلکہ خواتین نے بھی مختلف اشیاء کی چھابڑیاں لگا رکھی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم باب الاسباط پہنچ گئے جہاں عبدالقادر ہمارا منتظر تھا۔
ہماری اگلی منزل ’جبل الزیتون‘ یا Mount of Olives تھا۔ یہ یروشلم کے مشرق میں واقع ایک پہاڑی ہے اور اس کا نام جبل الزیتون (زیتون کا پہاڑ) اس نسبت سے پڑا کہ یہاں کسی زمانے میں زیتون کے درخت بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ جبل الزیتون وہ مقام یا پہاڑ ہے جو یروشلم شہر کو صحرائے یہودا سے الگ کرتا ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے سے مشرقی سرحد کے طور پر یروشلم کی نگہبانی کرتا چلا آ رہا ہے۔
جبل ِزیتون
جبل ِزیتون
پہاڑیوں پر آباد یروشلم شہر کے مکمل اور خوبصورت نظارے کے لیے یہ جگہ بہترین ہے۔ اونچی فصیلوں کے دامن میں پھیلا قدیم یروشلم شہر، بل کھاتی سڑکیں، سرسبز درختوں کے آنچل میں کسی موتی کی طرح جگمگاتا گنبد ِصخرہ اور گنبد ِصخرہ کے اُس پار دکھائی دیتی فلک بوس عمارتیں۔ ’جبل الزیتون‘ پر کھڑے ہو کر دائیں سے بائیں جانب نگاہ دوڑائیں تو اس شہر کا خوبصورت نظارہ کہیں سے بھی یہ تاثر نہیں دیتا کہ ابراہیمی مذاہب کی مقدس یادگاروں کے امین اور کئی مرتبہ اجڑ کر آباد ہونے والے ’یروشلم‘ کا حال بھی اتنا ہی پیچیدہ اور خون آلود ہے جتنا کہ اس شہر کی خاک و خون میں لتھڑی تاریخ۔
جبل الزیتون سے نیچے کی طرف دیکھیں تو پہلا منظر ایک بڑے قبرستان کا ہے۔ میری نظرچند یہودیوں پر پڑی جو مختلف قبروں کے سرہانے کھڑے دعائیں مانگنے کے ساتھ ساتھ اپنی مقدس کتاب تورات کی تلاوت میں مصروف تھے۔ معلوم ہوا جبل الزیتون دنیا بھر میں یہودیوں کے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہے اور یہودی یہاں پر زمانہ ِبابل (ساتویں صدی قبل از مسیح) سے ہی دفن ہونا اعزاز سمجھتے آئے ہیں۔ یہودی عقیدے کے مطابق قیامت کے دن رب کا ظہور اسی پہاڑ پر ہوگا۔ یہودیوں کو یہاں ایسے دفنایا جاتا ہے کہ ان کے پیر ہیکل ِسلیمانی کی طرف ہوتے ہیں تاکہ قیامت کے دن جب حضرت ِ انسان کو دوبارہ زندہ کیا جائے تو انہیں ہیکل ِسلیمانی کی طرف چل کر جانے میں کوئی دقت نہ ہو۔
جبل ِزیتون پر یہودی قبرستان
جبل ِزیتون پر یہودی قبرستان


جبل الزیتون کی اہمیت عیسائیت میں بھی کم نہیں، عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی کی آخری شب اسی پہاڑ کے قریب واقع کلیسہ ِآلام (Church of all nations) میں عبادت کرکے گزاری تھی اور یہیں سے انہیں مختلف راستوں سے گزارتے ہوئے کنیسہ القائمہ (Church of Holy Sepulchre) لے جایا گیا تھا جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا۔ آج بھی مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے جبل الزیتوں پر پیدل چڑھتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں اسی راستے پر چلتے چلتے کنیسہ القائمہ پہنچتے ہیں۔ ان کے لیے یہ پرآشوب مقام ہے جہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو صعوبتوں سے گزارا گیا اور ان کی والدہ بی بی مریم نے یہ اذیت ناک لمحات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول جبل الزیتون پر ہوگا جہاں سے وہ یروشلم کی طرف جائیں گے۔

جبل الزیتون کی سڑک پر ہی ڈھلان اترتے ہوئے حضرت مریم کا مرقد ہے جسے Church of Mary کہا جاتا ہے۔۔۔ جبل الزیتون سے فارغ ہو کر ہم بی بی مریم کے مرقد کی طرف چل پڑے۔ مسیحی عقیدے کے مطابق بی بی مریم اپنی نیند کے دوران خدا سے جا ملی تھیں۔ اسی غار میں آدھی سیڑھیاں اتر کر سیدھے ہاتھ پر حضرت مریم کے والدین حضرت عمران علیہ السلام جنہیں مسیحی عقیدے میں Joachim کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور حضرت مریم کی والدہ کی قبور ِمبارکہ بھی موجود ہیں۔ سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دائیں ہاتھ پر بی بی مریم کا مرقد ہے۔ میں یہاں پر ایک لمبی قطار کا حصہ بن گئی۔ عیسائی خواتین نے عقیدت کی وجہ سے اپنے سروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ بی بی مریم کی قبر کے گرد شیشے کی دیوار بنائی گئی ہے۔ اس قبر میں ایک جگہ پر سوراخ ہے جو بی بی مریم کی جنت کی طرف روانگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔۔۔
بی بی مریم کے مرقد پر عیسائی عقیدے کے مطابق بی بی مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہہ
بی بی مریم کے مرقد پر عیسائی عقیدے کے مطابق بی بی مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہہ
دوپہر کے ساڑے تین بج چلے تھے، میں نے عبدالقادر سے فرمائش کی کہ مجھے یروشلم کے قدیم شہر کی گلیوں میں گھومنا ہے جہاں میں تخیل کے زور پر نہ جانے کتنی مرتبہ بھٹک چکی ہوں۔ عبدالقادر نے یہ مشن اپنے 15 سالہ بیٹے وسیم کے سپرد کیا اور میں اس کے ساتھ چل پڑی۔ وسیم کالج کے سال ِاول کا طالبعلم ہے، خواب بڑے ہیں مگر باتیں اس سے بھی بڑی ہیں۔
یروشلم کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے، ’عروسیلما‘ کو اس شہر کا اولین نام بتایا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق یروشلم کم از کم دو مرتبہ مکمل طور پر تباہ ہو کر آباد ہوا، 23 مرتبہ اس کا محاصرہ کیا گیا اور اس شہر نے تقریبا 52 حملوں کا سامنا کیا۔ اس خونریز تاریخ کے باوجود آج یہ شہر پوری تابناکی کے ساتھ کھڑا ہے اور تین ابراہیمی مذاہب کی مقدس تاریخ کا امین ہے۔ پیچیدہ تاریخ اور تلخ حال کے باوجود سیاحوں کی بڑی تعداد ہر برس یہاں آتی ہے۔ اسرائیلی وزارت ِسیاحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2013ء میں تقریبا 35 لاکھ سیاحوں نے یروشلم کا رخ کیا۔
قدیم یروشلم کی اونچی فصیلیں 2.4 میل کے فاصلے کا احاطہ کرتی ہیں جبکہ اس قدیم شہر کے سات دروازے ہیں جس سے لوگ تاریخ کے جھروکوں میں داخل ہوتے ہیں۔ قدیم شہر چار کوارٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مسلمان کوارٹر، آرمینین کوارٹر، عیسائی کوارٹر اور یہودی کوارٹر۔ 1948ء میں عرب اسرائیل جنگ میں یروشلم کے قدیم شہر کا کنٹرول اردن نے حاصل کرکے یہاں سے تمام یہودیوں کو بے دخل کر دیا تھا۔ مگر 1967ء میں چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت قدیم شہر کا کنٹرول واپس حاصل کر لیا اور آج بھی اسرائیلی فوج ہی اس پورے علاقے کی نگرانی کرتی ہے۔ ہم آرمینین کوارٹر سے قدیم شہر کے اندر داخل ہوئے، یہ قدیم شہر نسبتا تنگ مگر صاف ستھری گلیوں (ہمارے اندرون شہروں کی گلیوں سے نسبتا کھلی اور چوڑی گلیاں) میں آباد ہے۔ وسیم مجھے آرمینین کوارٹر کے اوپر واقع چھت پر لے گیا جہاں سے قبتہ الصخرہ کا حسین نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں پر چند لمحے ٹھہر کر ہم مسلم کوارٹر کی جانب بڑھے جسے عربی میں حارة المسلمین کہا جاتا ہے۔ جگہ جگہ چوکیاں بنی ہیں جہاں پر اسرائیلی اور کہیں کہیں اسرائیلی عرب فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔
قدیم یروشلم شہر میں ’حارة المسلمین‘ یا ’مسلمان کوارٹر‘
قدیم یروشلم شہر میں ’حارة المسلمین‘ یا ’مسلمان کوارٹر‘
“مسلم کوارٹر 76 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہاں 22 ہزار کے لگ بھگ مسلمان آباد ہیں۔ یہاں پر چند یہودی خاندان بھی بستے ہیں اور مسلم کوارٹر میں ہی یہودیوں کی تورات کی تعلیم کا سب سے بڑا ادارہ تورات چیم یشیوا بھی موجود ہے”۔ وسیم ایک مدبر سفری رہنما کی طرح مجھے ہر گلی کوچے کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا تھا۔ دکانوں کے باہر گاہکوں کا ہجوم تھا اور خرید و فروخت جاری تھی۔ بالکل پاکستان والا حساب۔ وہی بھاؤ تاؤ کے طریقے۔ وہی دکانداروں کی پیچھے سے آتی صدائیں اور وہی خواتین و حضرات کے دام کم کرانے کے داؤ پیچ۔ ایک لمحے کو تو یوں لگا جیسے اسلام آباد کے اتوار بازار یا پھر لاہور کے اچھرہ بازار میں آگئی ہوں۔
میری عادت ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک یا شہر جا کر وہاں سے وابستہ چیزیں بطور یادگار لیتی ہوں۔ وسیم مجھے ایک دکان میں لے گیا جہاں یروشلم سے متعلق برتن، مقناطیس، قمیضیں، کی رنگز اور دیگر کئی چیزیں موجود تھیں۔ میں نے اپنے اور گھر والوں کے لیے کچھ اشیاء خریدیں۔ مسلم کوارٹر کی ان دکانوں میں چیزوں کی ورائٹی تو بہت ہے مگر یہاں پر اچھی کوالٹی کی چیز ڈھونڈنا مشکل ہے۔ مغرب کا وقت ہو چلا تھا، میں نے مزید خریداری کے ارادے کو خیر باد کہہ کر ہوٹل کی راہ لی۔ ہوٹل پہنچی تو دیکھا کہ نیچے استقبالیے پر چند یہودی ایک میز پر موم بتیوں کے ارد گرد دعا مانگنے میں مصروف تھے۔ معلوم ہوا ہفتے کے روز اسرائیل میں ’شابات‘ منایا جاتا ہے۔ جس کی ابتدا جمعے کی شب شروع ہوجاتی ہے۔ یہ عبادت اسی سلسلے میں کی جا رہی تھی۔
جاری ہے۔۔۔

یروشلم میں عرب مہمان نوازی

عرب گائیڈ عبدالقادر کے ہمراہ
عرب گائیڈ عبدالقادر کے ہمراہ
قسط نمبر 4 ۔۔۔ فاطمہ مجھے قہوہ کی ایک اور پیالی پلانے پر بضد تھی، مگر میں نے تنگی ِوقت کا بہانہ کرکے اس مہربان میزبان سے رخصت چاہی جو ان چالیس منٹ میں ہی مجھے دل و جان سے اپنی بیٹی بنا کر بارہویں اولاد کا درجہ دے چکی تھی۔۔۔

گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
مسجد ِقبلی سے نکلتے ہوئے نظر سیدھی قبتہ الصخرہ پر کچھ یوں ٹھہرتی ہے کہ انسان مبہوت ہو جاتا ہے۔ اس سنہری گنبد میں یقینا کوئی کشش کوئی جادو ہے جس نے میرے چلتے قدم روک دئیے اور میں کتنی ہی دیر ایک ٹک اسی گنبد کو تکتی رہی۔۔۔
قبتہ الصخرہ، وہ مقام جہاں سے نبی ِکریم ﷺ معراج کے سفر پر روانہ ہوئے
قبتہ الصخرہ، وہ مقام جہاں سے نبی ِکریم ﷺ معراج کے سفر پر روانہ ہوئے


سیڑھیوں پر بیٹھی بوڑھی بھکارن کا سوال مجھے واپس لے آیا، میں نے جلدی سے اسے کچھ ریزگاری پکڑائی اور تیزی سے قدم اٹھاتی گاڑی تک پہنچی جہاں عبد القادر میرا منتظر تھا۔ گاڑی میں بھینی بھینی خوشبو پھیلی تھی، ’مدیحہ، یہ ’یروشلم بیگل‘ ہے اور یروشلم کی خاص پہچان ہے‘۔ عبدالقادر نے سنہرے رنگ اور بیضوی شکل کی قدرے بڑے حجم کی تل لگی خمیری روٹی پکڑائی جو دکھنے میں ہی نہیں بلکہ ذائقے میں بھی لاجواب تھی۔
ایک نوجوان عرب لڑکا ’یروشلم بیگل‘ (خمیری روٹی) بیچتے ہوئے
ایک نوجوان عرب لڑکا ’یروشلم بیگل‘ (خمیری روٹی) بیچتے ہوئے



ہم اب باب الاسباط سے نکل کر ڈھلان کی جانب ایک تنگ سی سڑک پر جا رہے تھے، یہ وہ راستہ نہ تھا جہاں سے ہم آئے تھے، ’ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘۔ میرے سوال پر عبدالقادر مسکرا دیا، ’کافی چلے گی؟ ہماری صبح کا آغاز کافی کے بغیر ادھورا ہے۔ اور یہ مسجد ِاقصیٰ سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر مسلمان اکثیریتی علاقہ سلوان (Silwan) ہے‘۔ گاڑی تنگ سی اونچی نیچی گہری ہوتی سڑک پر دوسری گاڑیوں سے بچتی بچاتی ایک بند موڑ پر جا رکی۔ عبدالقادر نیچے اترا، ہاتھ میں انڈے، ٹماٹر، دھنیا، پنیر اور خُبز (عربی روٹی) پر مشتمل تھیلیاں پکڑ رکھی تھیں۔۔۔ آس پاس بہت سے ننھے منے فلسطینی عرب بچے کندھوں پر بستے لٹکائے اپنے والد کا ہاتھ تھامے سکول کی طرف رواں دواں تھے، کچھ بچے گاڑیوں میں بیٹھے تھے اور سبھی گردن پلٹا کر مجھے حیرت سے تک رہے تھے۔ شاید ان کے لیے میرا چہرہ بہت نیا اور ناشناس تھا۔ آس پاس کی دکانیں عربی کافی کی خوشبو سے مہکنا شروع ہو گئی تھیں۔ سڑک پر موجود دکانوں اور کیفے کے شٹر کھولے جا رہے تھے۔

’مدیحہ، میں آپ کو ایک ایسی جگہ لے جا رہا ہوں جہاں آپ کو یروشلم کی بہترین کافی ملے گی‘۔

میں مسکرا کر اپنے عرب میزبان کے پیچھے چل پڑی۔۔۔ کوئی پچاس ساٹھ سیڑھیاں چڑھ کر بائیں ہاتھ پر پہلا دروازہ عبدا لقادر کے گھر کا تھا۔ میں نے ارد گرد نگاہ دوڑائی، پہاڑیوں پر چھوٹے بڑے گھر ایستادہ تھے۔ چند گھروں پر اسرائیلی جھنڈا بھی لہرا رہا تھا، گو کہ ایسے گھر اکا دکا ہی تھے۔ سلوان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جو کئی نسلوں سے یہیں آباد ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق سلوان کے علاقے میں بیس سے پچاس ہزار کے قریب فلسیطنی جبکہ پانچ سو سے ڈھائی ہزار کے لگ بھگ یہودی آباد ہیں۔۔۔ 1948 میں اسرائیل اور اردن کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد سلوان اردن کے زیر ِنگیں رہا مگر اردن یہ علاقہ صرف 1967 تک ہی سنبھال سکا اور اسی برس اسرائیل کے ساتھ ہونے والی چھ روزہ جنگ کے نیتجے میں سلوان کا کنٹرول اردن کے ہاتھ سے جاتا رہا۔۔۔ یہاں رہنے والے مسلمان اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں، گو کہ یہ آج بھی خود کو فلسطینی کہتے ہیں۔

’تو یہ ہے میرا غریب خانہ‘، عبدالقادر نے گھر کا دروازہ ایک چھوٹے سے برآمدے میں وا کیا۔۔۔ سامنے بوسیدہ سا تخت تھا اور ساتھ ہی دو تین ٹوٹی کرسیاں دھری تھیں جس پر بیٹھی کالی بلی بڑے غور سے اپنے گھر میں داخل ہونے والی اجنبی مہمان کو تکے جا رہی تھی۔۔۔ جالی کے دروازے سے گھر کے اندر داخل ہوئی تو پہلی نظر دائیں ہاتھ پر کچن میں کھڑی ایک ادھیڑ عمر عورت سے جا ٹکرائی، ’مرحبا مرحبا، انا فاطمہ‘ (خوش آمدید، میں فاطمہ ہوں)۔ یہ عبدالقادر کی اہلیہ تھیں اور گذشتہ چالیس برس سے عبدالقادر کے عقد میں ہیں۔ چہرے پر ایسی معصومیت کہ انسان فدا ہو جائے۔ فاطمہ انتہائی پرتپاک اور خالص عربی انداز (تین بار گلے ملنا اور گالوں پر بوسہ دینا) سے ملی۔ آہستہ آہستہ گھر کے باقی مکین بھی جاگنا شروع ہو گئے۔ عبدالقادر کثیر العیال ہیں، فقط گیارہ بچے ہیں، بڑی بیٹی رعنا 38 برس کی اور سب سے چھوٹے دو جڑواں بیٹے محمود اور وسیم 15 برس کے ہیں جبکہ دو درجن سے زائد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔

عبدالقادر کی اہلیہ فاطمہ کے ساتھ شاپنگ کرتے ہوئے
عبدالقادر کی اہلیہ فاطمہ کے ساتھ شاپنگ کرتے ہوئے

تھوڑی ہی دیر میں کچن کی میز ناشتے سے سج چکی تھی، یروشلم بیگل، خُبز (عربی روٹی)، ٹماٹر، زیتون، پنیر اور زاتر (عربی مصالحہ جسے زیتوں کے تیل میں شامل کیا جاتا ہے) پر مشتمل خالص عربی اور صحت بخش ناشتہ، ناشتے کے ساتھ ساتھ گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ عبدالقادر کی انگریزی صاف ہے، بتانے لگا کہ وہ امریکی شہری ہے اور دس برس امریکہ میں گزار چکا ہے جہاں ایک سفید فام خاتون سے شادی بھی کی جو بعد میں طلاق پر ختم ہوئی۔ میں نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا، ’کیا ٹور گائیڈ کے طور پر آپ معقول رقم کما لیتے ہیں اور گزارہ بآسانی ہو جاتا ہے؟' یروشلم کے مسلمانوں کی اکثریت سفری رہنمائی، ٹیکسی چلانے یا کسی چھوٹے موٹے دیہاڑی والے کام سے منسلک ہے۔ قلیل وسائل، کم آمدنی اور محدود تر تعلیمی مواقع یروشلم کے عرب مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ ’اللہ کا کرم ہے گزارہ ہو جاتا ہے، میرے بیٹے اور داماد بھی اس کام میں میرا ہاتھ بٹاتے ہیں‘۔
فاطمہ بہانے بہانے سے میری قہوہ کی چھوٹی سی پیالی بھرتی جا رہی تھی۔ انگریزی سے یکسر نابلد تھی اور اس کی گفتگو کا واحد ذریعہ وہ نرم اور پرجوش مسکراہٹ تھی جو ایک لمحے کے لیے بھی اس کے گول اور صبیح چہرے سے معدوم نہ ہوئی تھی۔ اس نے اپنے مترجم (عبدالقادر) کی مدد سے مجھے بتایا کہ وہ کتنی خوش ہے کہ ایک پاکستانی بیٹی اس کے گھر آئی ہے۔ ذرا سی دیر میں عبدالقادر نے تیسرا سگریٹ سلگایا تو فاطمہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار نمودار ہوئے، رعنا نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ ماں کو باپ کا ذرا ذرا سی دیر میں سگریٹ سلگانا بالکل پسند نہیں۔ رعنا کا بڑا بیٹا 18 برس کا ہے اور شوہر امریکہ میں سکونت پذیر۔ ازدواجی معاملات ٹھیک نہیں اس لیے وہ فلسطینی دارالحکومت رملہ میں شوہر کا گھر ہونے کے باوجود زیادہ تر باپ کے گھر پائی جاتی ہے۔ کچھ تھا اس گھرانے میں جو بہت حد تک پاکستانی خاندانی نظام سے ملتا جلتا تھا۔ وہی ایک دوسرے کا خیال اور وہی خاندانی رشتوں کو سنبھالنے، سینتنے اور نبھانے کی عادت۔۔۔ میں قہوے کی چسکیوں کے ساتھ ساتھ اس سفید پوش مگر مہمان نواز عرب گھرانے کی گفتگو کا سرور بھی لے رہی تھی، جن سے پہلی ملاقات میں ہی اپنائیت بے تکلفی کی حدود کو چھو چکی تھی۔ فاطمہ مجھے قہوہ کی ایک اور پیالی پلانے پر بضد تھی، مگر میں نے تنگی ِوقت کا بہانہ کرکے اس مہربان میزبان سے رخصت چاہی جو ان چالیس منٹ میں ہی مجھے دل و جان سے اپنی بیٹی بنا کر بارہویں اولاد کا درجہ دے چکی تھی۔ طے پایا کہ عبدالقادر مجھے ہوٹل چھوڑ آئے گا اور گیارہ بجے مجھے تیار رہنا ہوگا تاکہ نماز ِجمعہ مسجد ِاقصیٰ میں ادا کی جا سکے۔
ٹھیک گیارہ بجے عبدالقادر نے اپنی آمد کی اطلاع دی، گاڑی میں فاطمہ بھی اپنی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھی۔ عبدالقادر نے بتایا کہ نماز ِجمعہ میں فاطمہ میرے ہمراہ ہوگی تاکہ مجھے کسی دقت کا سامنا نہ ہو۔ ہم باب العامود پر اترے جسے انگریزی میں Damascus Gate کہتے ہیں۔ فاطمہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ہجوم میں سے چیرتی ہوئی آگے بڑھتی رہی اور تنگ سی گلیوں میں سے راستہ بناتی، کبھی دائیں کبھی بائیں جانب مڑتی رہی۔ ان گلیوں کو دیکھ کر مجھے لاہور اور پنڈی کے اندرون شہر کی یاد آئی، مگر یہ گلیاں ہمارے اندرون شہر کی گلیوں سے زیادہ کشادہ اور انتہائی صاف ستھری تھیں۔ کہیں پر گٹر نہیں ابل رہے تھے اور کہیں پر گندگی نہیں پھیلی تھی۔ جگہ جگہ پھل اور خوانچہ فروش اپنی مختصر دکانیں اور چھابڑی سجائے بیٹھے تھے۔ قدم قدم پر یہاں آپ کا واسطہ بھکاریوں سے بھی پڑتا ہے، چھوٹے چھوٹے بچے آپ کا دامن پکڑے کسی نہ کسی چیز کی خریداری پر اصرار بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم احاطہ ِمسجد ِ اقصیٰ میں موجود تھے۔ میں مسجد ِ قبلی کی طرف قدم بڑھانے لگی تو فاطمہ نے میرا ہاتھ زور سے دبا کر قبتہ الصخرہ کی طرف اشارہ کیا۔ معلوم ہوا کہ مرد حضرات مسجد ِقبلی جبکہ خواتین قبتہ الصخرہ میں نماز ِجمعہ ادا کرتی ہیں (گو کہ قبتہ الصخرہ مسجد نہیں ہے)۔۔۔ میں اور فاطمہ بھی قبتہ الصخرہ میں داخل ہونے والی خواتین کے ہجوم کا حصہ بن گئے۔

قبتہ الصخرہ کے اندر خواتین کا بے تحاشا رش تھا اور تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ اچانک میری نظر سامنے لکڑی کے فریم میں ایستادہ ایک چٹان پر پڑی۔ روایات کے مطابق یہ وہ چٹان ہے جس پر نبی ِکریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے براق کے ذریعے معراج کی رات آسمانوں کا سفر طے کیا تھا۔ چند روایات کے مطابق جب براق نے اس چٹان سے نبی ِکریم صل اللہ علیہ وسلم کی سواری کی اڑان بھری تو چٹان شدت ِجذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور براق کے ہمراہ بلند ہونے لگی تب جبرئیل امین علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے چٹان پر اپنا دست ِمبارک رکھ کر اسے روکا۔ اس چٹان پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ہاتھ کے نشان اور براق کے قدموں کے نشان واضح دکھائی دیتے ہیں۔۔۔

میں چٹان کو دکھ رہی تھی کہ فاطمہ نے مجھ سے ابلاغ کا واحد ذریعہ استعمال کرتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑا۔ میں فاطمہ کے پیچھے چل پڑی اور چند قدموں بعد ہی ایک غار نما کمرے کی سیڑھیوں پر کھڑی تھی۔۔۔ یوں سمجھیئے یہ تہہ خانہ یا غاز نما کمرہ چٹان کا زیریں حصہ ہے۔ یہ جگہ ’بئر الارواح‘ کہلاتی ہے۔ انگریزی میں اسے well of souls کہا جاتا ہے۔

Wednesday, 15 March 2017

مسجد ِاقصیٰ پر پہلی نظر

 

قسط نمبر 3 ۔۔۔ میری آنکھوں کے سامنے قبلہ ِاول تھا، بارش میں دھلا دھلا اور صبح صادق کے اندھیرے میں جگمگاتا ہوا قبلہ ِاول، مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ ِمنورہ کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ۔۔۔
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
صبح ٹھیک ساڑھے چار بجے فون کی گھنٹی نے عبدالقادر کی آمد کی اطلاع دی۔۔۔آسمان پر اندھیرے کی چادر تنی تھی اور چھاجوں مینہ برس رہا تھا۔۔ میں بارش سے بچتی بچاتی گاڑی تک پہنچی، عبدالقادر کے انداز میں تپاک اور اتنی اپنائیت تھی کہ مجھے محسوس ہی نہ ہوا کہ میں اس عرب بزرگ سے زندگی میں پہلی مرتبہ ملی ہوں۔۔

گاڑی مسجد ِاقصیٰ کے راستے پر ڈالنے اور حال چال پوچھنے کے بعد عبدالقادر ایک مستعد گائیڈ کی طرح آس پاس کے علاقوں کے بارے میں بتانے لگا۔۔۔ تقریبا آٹھ نو منٹ میں گاڑی ایک تنگ سی سڑک پر چڑھنے لگی، ’یہ سڑک قدیم یروشلم کے باب الاسباط کی طرف جاتی ہے جسے انگریزی میں Lions Gate کہتے ہیں۔ فٹ پاتھ پر تیزی سے چڑھائی چڑھتے یہ لوگ مقامی اسرائیلی عرب ہیں اور فجر کی جماعت کے لیے مسجد ِاقصیٰ جا رہے ہیں‘۔۔۔ تنگ سڑک کے دونوں جانب گاڑیاں کھڑی تھیں اور ہماری گاڑی گزرنے کی گنجائش کم ہی تھی، مگر عبدالقادر مہارت سے گاڑی باب الاسباط کے بڑے سے آہنی دروازے سے اندر لے گیا۔۔۔ ’ہم فجر کے بعد یہیں ملتے ہیں،‘ ایک تنگ سی گلی کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے وہ بولا۔

میں خواتین اور مردوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کے پیچھے چل پڑی، بارش ہنوز برس رہی تھی، یہ گلی بہت قدیم اور تنگ ہونے کے باوجود صاف ستھری تھی، گلی کے اختتام پر چیک پوسٹ موجود تھی جہاں تین مستعد اسرائیلی عرب گارڈز بندوقیں تھامے کھڑے تھے۔۔۔ ’ٹھہریئے، آپ کہاں سے ہیں؟‘ وہ غیر عرب کو پہچاننے میں چوکتے نہیں، ’امریکہ سے مگر تعلق پاکستان سے ہے‘۔۔۔ ’مسلمہ؟‘ چونکہ احاطہ ِمسجد ِاقصیٰ صرف مسلمانوں کے داخلے کے لیے مختص ہے، اس لیے چیک پوسٹ پر متعین گارڈز یقینی بناتے ہیں کہ اندر صرف مسلمان ہی داخل ہوں۔۔۔ میرے ہاں کہنے پر گارڈ ’مرحبا یا اُختی، مرحبا‘ (اے میری بہن خوش آمدید) کہتے ہوئے مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا۔۔۔

احاطے میں داخل ہو کر پہلی نظر قبتہ الصخرہ پر پڑتی ہے جہاں سے روایات کے مطابق نبی ِکریم صل اللہ و علیہ وسلم معراج کے سفر پر تشریف لے گئے تھے۔۔۔ سنہرے گنبد والا قبتہ الصخرہ (قبتہ معنی گنبد، صخرہ معنی چٹان) دنیا بھر میں یروشلم کی پہچان ہے جسے 691ء عیسوی میں اموی خلیفہ عبدالمالک کے حکم پر تعمیر کیا گیا۔۔۔ قبتہ الصخرہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر سات محرابوں اور کالے گنبد والی نسبتا سادہ سی مسجد ِاقصیٰ (جو قبلہ ِاول کی نسبت سے مسجد ِقبلی کہلاتی ہے)، موجود ہے۔۔۔ بہت سے لوگ قبتہ الصخرہ اور مسجد ِاقصیٰ کے درمیان امتیاز کرنے سے قاصر ہیں اور سنہرے گنبد اور شان و شوکت والے قبتہ الصخرہ کو ہی مسجد ِاقصیٰ سمجھتے ہیں۔۔۔ یہاں یہ ذکر بھی کرتی چلوں کہ مسجد ِاقصیٰ محض ایک مسجد کا نام نہیں بلکہ 36 ایکڑ پر پھیلا یہ تمام احاطہ جس میں مسجد ِقبلی، قبتہ الصخرہ، مسجد ِبراق اور قبتہ السلسلہ سمیت دیگر کئی عمارتیں شامل ہیں، انہی تمام عمارتوں کا مجموعہ ’مسجد ِاقصیٰ‘ اور ’حرم الشریف‘ کہلاتا ہے۔۔۔

حرم الشریف کا یہی احاطہ اسرائیل و فلسطین کے یہودی اور مسلمانوں کے درمیان تنازعے کی بنیادی وجہ بھی ہے۔۔۔ یہودیوں کی پہلی عبرانی بائبل Book of Genesis کے مطابق جس ٹیلے پر قبتہ الصخرہ موجود ہے اور جسے یہودی Mount Moriah کہتے ہیں، وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام قربانی کی غرض سے حضرت اسحقٰ علیہ السلام کو لے کر گئے تھے۔۔۔ یہودی خدا کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قربانی کے اس عمل کو Binding of Isaac یا Akedah ’عقیدہ‘ کا نام دیتے ہیں۔۔۔ یہودی عقیدے کے تین بڑے Patriarchs یا بزرگ ہستیوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحقٰ علیہ السلام (حضرت ابراہیم کے بیٹے) اور حضرت یعقوب علیہ السلام (حضرت اسحقٰ کے بیٹے) کا شمار کیا جاتا ہے۔۔۔

واپس چلتے ہیں قبتہ الصخرہ کی جانب جہاں سے میں مسجد ِاقصیٰ کی طرف جا رہی تھی۔۔۔ اب میری آنکھوں کے سامنے قبلہ ِاول تھا، بارش میں دھلا دھلا اور صبح صادق کے اندھیرے میں جگمگاتا ہوا قبلہ ِاول، مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ ِمنورہ کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام جس کی بنیاد (احادیث کے مطابق) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسحقٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کر رکھی تھی۔۔۔

میں جوتے باہر لکڑی کے ریک میں رکھتے ہوئے مسجدِ قبلی میں داخل ہوئی جہاں نمازیوں کی معقول تعداد موجود تھی۔۔۔ خواتین مسجد کے دروازے کے ساتھ سیدھے ہاتھ پر بنے گوشے میں پانچ چھ صفوں میں بیٹھی تھیں۔۔۔ اکثریت عرب خواتین کی تھی مگر مجھے ترک اور انڈونیشین چہرے بھی دکھائی دئیے۔۔۔ سوا پانچ ہو چکے تھے اور جماعت کھڑی ہونے میں دس منٹ باقی تھے۔۔۔ مرد و خواتین نوافل کی ادائیگی میں مشغول تھے۔۔۔

مرد حضرات نماز ِفجر کے بعد عالم ِدین کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے
مرد حضرات نماز ِفجر کے بعد عالم ِدین کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے
فجر کی ادائیگی کے بعد نمازی تلاوت ِقرآنِ کریم میں مصروف ہو گئے۔۔۔ منبر کے پاس کچھ مرد حضرات ایک عالم کے گرد گھیرا ڈالے ’تعلیم‘ (درس) حاصل کر رہے تھے۔۔۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں خاتون ہونے کے ناطے مردوں کے حصے میں جانے پر ٹوکا نہ جائے، مگر ایسا نہ ہوا۔۔۔ یہاں یہ بات قابل ِذکر ہے کہ مسجد میں کہیں کوئی رکاوٹ نہیں لگائی گئی، گو کہ مرد و خواتین کی نماز کی ادائیگی کے لیے الگ حصے مختص ہیں، مگر مرد بآسانی خواتین جبکہ خواتین بآسانی مردوں والے حصے میں آجا سکتی ہیں، اس سلسلے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔۔۔ میں مسجد کے کونے کونے کو کیمرے میں محفوظ کرنے لگی۔۔۔
نماز ِفجر کے بعد خواتین کے گوشے میں
نماز ِفجر کے بعد خواتین کے گوشے میں
تصویریں کھینچ کر واپس خواتین کے حصے میں لوٹی تو چند خواتین سے سلام دعا ہوئی۔۔۔ مقامی فلسطینی خواتین یہ جان کر خوش ہوئیں کہ میں پاکستانی ہوں، انکی آنکھوں میں جیسے پاکستان کا نام سن کر جگنو سے چمک گئے، وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور میرے گالوں پر بوسوں سے محبت کا اظہار کر رہی تھیں اور میں عربی کے چند الفاظ کے سہارے ان کی ممنون ہو رہی تھی۔۔۔
مسجد ِاقصیٰ میں خواتین نماز ِفجر کی تیاری کرتے ہوئے
مسجد ِاقصیٰ میں خواتین نماز ِفجر کی تیاری کرتے ہوئے
یروشلم سے تعلق رکھنے والی مریم کی انگریزی شستہ تھی، اس نے تعارف کے بعد مجھے بتایا کہ پیچھے کونے میں خاموش بیٹھی خاتون غریب، مظلوم اور بے سہارا ہے، غزہ سے بمشکل یہاں پہنچی ہے۔۔۔ اس کا شوہر اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں چند سال پہلے ہلاک ہو گیا تھا اور اب اس کے گھر کا چولہا کئی کئی دن نہیں جلتا۔۔۔ اس عورت کی گود میں بیٹھا ایک لاغر سا چھ سالہ بچہ کینسر کے موذی مرض کا شکار ہے، اگر آپ چاہیں تو اس کی مدد کر سکتی ہیں۔۔۔ اگلے چند روز مسجد ِاقصیٰ میں نمازِ فجر کے دوران یہی طریق دیکھا کہ مستحق خواتین اور حضرات فجر کے بعد ایک کونے میں بیٹھ جاتے ہیں اور مخیر خواتین و حضرات ان کی مدد کر دیتے ہیں۔۔۔
گھڑی دیکھی تو ساڑھے چھ بج رہے تھے اور باہر جھٹ پٹا ہو چلا تھا۔۔۔ مسجد ِقبلی سے نکلتے ہوئے نظر سیدھی قبتہ الصخرہ پر کچھ یوں ٹھہرتی ہے کہ انسان مبہوت ہو جاتا ہے۔۔۔ اس سنہری گنبد میں یقینا کوئی کشش کوئی جادو ہے جس نے میرے چلتے قدم روک دئیے اور میں کتنی ہی دیر ایک ٹک اسی گنبد کو تکتی رہی۔۔۔ سیڑھیوں پر بیٹھی بوڑھی بھکارن کا سوال مجھے واپس لے آیا، میں نے جلدی سے اسے کچھ ریزگاری پکڑائی اور تیزی سے قدم اٹھاتی گاڑی تک پہنچی جہاں عبد القادر میرا منتظر تھا۔۔۔

جاری ہے۔۔۔
مسجد ِاقصٰی کا بیرونی منظر
مسجد ِاقصٰی کا بیرونی منظر

Monday, 13 March 2017

تل ابیب سے یروشلم

 

قسط نمبر 2 ۔۔۔ اسرائیلی حکام پاسپورٹ پر مہر ثبت کرنے کی بجائے ایک علیحدہ کاغذ پر داخلے کی اجازت یا ’انٹری پرمٹ‘ دیتے ہیں۔ مگر یہ انٹری پرمٹ سوالات کے ایک لامتناہی سلسلے کے کڑے مرحلے سے گزر کر ہی ہاتھ میں تھمایا جاتا ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
اسرائیل کے پہلے وزیر ِاعظم ڈیوڈ بن گیرین کی نسبت پر قائم کیے گئے اس ائیرپورٹ کو دیکھ کر پہلا تاثر ہیکلِ سلیمانی کی طرز پر بنائے گئے کسی قلعے کا ہوتا ہے۔ یہ ہوائی اڈہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کے دیگر بین الاقوامی ہوائی اڈوں سے چھوٹا ہے۔
تقریبا سات آٹھ منٹ کے بعد ہم پاسپورٹ چیکنگ کاؤنٹر پر کھڑے تھے جہاں بیک وقت تین پروازوں کے مسافروں کے کاغذات کی پڑتال کی جا رہی تھی۔۔۔ کوئی دس منٹ بعد میری باری آئی، ’پاسپورٹ پلیز‘ امیگریشن کاؤنٹر پر بیٹھی نوجوان خاتون میرا پاسپورٹ سکین کرنے کے بعد کی بورڈ پر کچھ ٹائپ کرتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اور ایک بھرپور نظر ڈالتے ہوئی بولی، ’تو آپ کی پیدائش پاکستان کی ہے؟‘۔ سمجھ نہ آیا یہ فرد ِجرم تھی یا کہ سوال؟ جتنی دیر میں سمجھ پاتی، اسرائیلی خاتون پاسپورٹ ہاتھ میں تھما کر سامنے کونے میں بنے ’ویٹنگ روم‘ میں بیٹھنے کا اشارہ کر چکی تھی۔
انتظار گاہ میں دس پندرہ افراد موجود تھے، زیادہ تر کا تعلق یورپی ممالک سے تھا۔ سبھی کے چہروں پر اکتاہٹ واضح تھی۔ دو تین حضرات اپنی باری کے انتظار میں کرسی پر بیٹھے بیٹھے اونگھ چکے تھے۔ ائیر پورٹ پر وائی فائی کی سہولت موجود تھی، عبدالقادر سے رابطہ کیا اور اسے موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔ عبدالقادر نے تسلی دیتے ہوئے بتایا کہ اسکا بیٹا شید ائیر پورٹ کے باہر منتظر کھڑا ہے۔
میں خالد حسینی کی کتاب And the Mountains Echoed میں دو ننھے منے بہن بھائی ’پری‘ اور ’عبداللہ‘ کی محبت بھری کہانی میں محو ہو چکی تھی جب تقریبا ایک گھنٹے بعد میرا نام پکارا گیا۔ سامنے ہی دائیں ہاتھ پر بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک اسرائیلی خاتون کسٹمز اہلکار مکمل میک اپ اور لمبی گھنگھریالی زلفیں کھولے ایک چھوٹی اور سادہ سی میز پر بیٹھی تھی، جس کے چہرے پر اگر مسکراہٹ مفقود تھی تو کرختگی کے آثار بھی نہ تھے۔ دل کو کچھ ڈھارس ہوئی۔ خاتون نے سوالات کا سلسلہ شروع کیا:
امریکی پاسپورٹ کب ملا؟ امریکہ میں رہائش کب، کیوں اور کس سلسلے میں اختیار کی؟
والد اور دادا کا کیا نام ہے؟
خاندان کہاں رہتا ہے؟ پاکستان میں کس شہر سے تعلق ہے وغیرہ وغیرہ
خاتون افسر میرے جواب ساتھ ساتھ کمپیوٹر میں درج کرتی جا رہی تھی۔ اس نے سادہ کاغذ پر مکمل نام، موبائل نمبر اور ای میل ایڈریس لکھنے کی تاکید کرتے ہوئے امریکی اور پاکستانی پاسپورٹ طلب کیا (گو کہ میرے پاکستانی پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی، مگر میں نے احتیاطاً ساتھ رکھ لیا تھا)۔ پانچ سے سات منٹ کے اس انٹرویو کے بعد خاتون کسٹمز اہلکار نے ایک بار پھر ویٹنگ روم کا راستہ دکھایا ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے !
انتظار گاہ میں ساتھ بیٹھی فرانسیسی عیسائی خاتون ریٹا سے گپ شپ لگنے لگی جو چار گھنٹے سے اپنے پاسپورٹ کے انتظار میں تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک اسرائیلی سیکورٹی اہلکار ایک بڑا سا پلاسٹک کا تھیلا لے کر انتظار گاہ میں داخل ہوا اور ہمیں ٹماٹر اور پنیر کے سینڈوچ کھانے کی پیشکش کی۔ غالباً ہماری حالت پر ترس آگیا تھا۔مگر میری دلچسپی سینڈوچ سے زیادہ اسرائیل داخلے کی اجازت پر تھی جہاں ہنوز دلی دور است والا معاملہ تھا۔ انتظار کی سولی سے فرار کے لیے میں نے ایک مرتبہ پھر پری اور عبداللہ کی انگلی تھامی اور ناول میں غرق ہوگئی۔
مزید ایک گھنٹہ بیت چکا تھا جب کسی نے بآواز ِبلند ’انور‘ پکارا۔ دستی بیگ سنبھالتے ہوئے باہر نکلی تو ایک مرتبہ پھر نام کی تصدیق کی گئی۔ اسرائیلی اہلکار کے ہاتھ میں میرا پاکستانی اور امریکی پاسپورٹ موجود تھا، ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کاغذ بھی تھا۔ اسرائیلی حکام پاسپورٹ پر مہر ثبت کرنے کی بجائے ایک علیحدہ کاغذ پر داخلے کی اجازت یا ’انٹری پرمٹ‘ دیتے ہیں۔ مگر تین بٹا دو انچ کے چھوٹے سے کاغذ پر شائع شدہ یہ انٹری پرمٹ سوالات کے ایک لامتناہی سلسلے کے کڑے مرحلے سے گزر کر ہی ہاتھ میں تھمایا جاتا ہے، منیر نیازی یاد آگئے۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
سیکورٹی اہلکار نے میرے صبر کا امتحان لیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ امریکہ میں کہاں کام کرتی ہیں؟ یروشلم کیوں دیکھنا ہے اور آنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ مسجد ِاقصیٰ جائیں گی اور اگر جائیں گی تو کیا نماز ِجمعہ وہاں ادا کرنے کا ارادہ ہے؟۔ تمام جواب ایمانداری سے دینے سے بعد بالآخر پاسپورٹ اور اسرائیل میں داخلے کا اجازت نامہ تھمایا گیا اور ’اسرائیل میں خوش آمدید‘ کہہ کر کسٹمز اہلکار نے باہر کی جانب اشارہ کیا جہاں سامان بیلٹ نمبر چھ کے ایک کونے میں ہمارا اٹیچی کیس تنہا پڑا تین گھنٹوں سے ہماری راہ تک رہا تھا۔
ائیر پورٹ کے طویل، اکتا دینے اور اسرائیلی اہلکاروں کے سپاٹ، اورسنجیدہ روئیے کی تلافی ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی عبدالقادر کے بیٹے شید کی گاڑی اور اس کے چہرے پر سجی مسکراہٹ دیکھ کر ہو گئی۔ شید سے انتظار کی زحمت پر معذرت کی تو کہنے لگا، ’مجھے اندازہ تھا کہ آپ کو ائیر پورٹ پر دیر لگ جائے گی۔ اکثر مسلمانوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے اور آپ کا تعلق تو پاکستان سے ہے‘۔ گویا یہ سونے پر سہاگہ والا معاملہ تھا۔ ائیر پورٹ سے یروشلم کا فاصلہ تقریبا 55 کلومیٹر ہے۔ تل ابیب کی سڑکیں جدید، ہموار اور تین یا چار رویہ تھیں۔ راستے میں ہر تھوڑے فاصلے کے بعد سڑک کنارے بڑے بڑے سبز رنگ کے بورڈ نصب تھے جس پر متعلقہ شہروں کے نام اور فاصلہ عربی، عبرانی اور انگریزی زبان میں درج تھے۔ یروشلم کی حدود کے ساتھ ہی ماحول یک دم بدل سا گیا۔ سیدھی سیدھی سڑک اب اونچے نیچے موڑ لے رہی تھی کہ یروشلم پہاڑوں پر آباد ہے۔۔۔ ہوا ٹھنڈی ہو چلی تھی اور کسی مہربان میزبان کی طرح بالوں سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے جیسے ہمارا خیر مقدم کر رہی تھی۔ پہاڑوں کے دامن میں بنے گھروں میں کہیں کہیں جلتی بجھتی بتیوں سے مجھے مکہ ِمکرمہ کی یاد آگئی۔ وہی پہاڑوں کے دامن میں بنے چھوٹے بڑے گھر، اونچی نیچی سڑکیں اور قدیم تاریخ و تہذیب کا مرکز۔
یروشلم جدید اور قدیم ثقافت کا عجب اور خوبصورت امتزاج ہے۔ جہاں ایک طرف پرانی اور کہیں کہیں بو سیدہ ہوتی عمارتیں موجود ہیں وہیں اس شہر کے در و دیوار میں دور ِجدید کی جھلک بھی جا بجا نظر آتی ہے۔ سڑکوں پر قدامت پسند یہودیوں کی طرح رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں دکھائی دئیے جن کی پہچان ان کے چہرے پر لٹکتی دو بڑی لٹوں سے ہوتی ہے جو کانوں سے ہوتی ہوئی، چہرے پر بل کھاتی ہوئی ان کے سینے تک جا پہنچتی ہیں۔۔۔ یہودی، جن سے میرا واسطہ آج سے پہلے محض فلموں یا پھر نیویارک میں برونکس اور بروکلین (نیو یارک میں یہودی اکثریتی علاقے) کی گلیوں میں دیکھنے کی حد تک ہی محدود رہا تھا، مگر اب میں اس سرزمین پر موجود تھی جس پر یہودی اور مسلمان دونوں اپنا حق جماتے ہیں اور جس کی تاریخ یہودیت اور اسلام کے نظریاتی اور مستقل ٹکراؤ سے عبارت رہی ہے۔
گاڑی یروشلم کی گلیوں میں بالکل ویسے ہی فراٹے بھر رہی تھی جیسا کہ شید کی زبان۔ وہ مختلف علاقوں کے بارے میں تفصیلا ت بتا رہا تھا۔ کونسا علاقہ یہودیوں کا ہے اور کس علاقے میں مسلمان آباد ہیں۔ کہاں مسلمانوں کا داخلہ منع ہے اور کہاں یہودی داخل نہیں ہوتے۔ کہاں جدید شہر کی امیر آبادیاں قائم کی گئی ہیں اور ان امیر آبادیوں کی اوٹ میں کون لوگ کچے مکانات اور جھونپڑوں میں تنگ دستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔’اور یہ وہ جگہ ہے جہاں جدید یروشلم غیر محسوس طریقے سے قدیم یروشلم کی تاریخی گلیوں میں ضم ہو جاتا ہے‘۔ شید نے اونچی فصیلوں کے اندر آباد قدیم یروشلم کے دروازے ’باب العامود‘ کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے کہا۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے، سڑکیں سنسان پڑی تھیں اور بھوک سے حالت غیر ہو چلی تھی۔ سامنے ہی ایک بوسیدہ سے ہوٹل نما دکان سے مزیدار شاورما خرید کر بھوک مٹائی۔
اسی دوران عبدالقادر کا فون بھی آگیا جو جاننا چاہتا تھا کہ اگلے روز کیا کرنا ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ جتنے بھی دن اسرائیل میں ہوں فجر مسجد ِاقصیٰ میں ادا کی جائے۔ عبدالقادر یہ سن کر خوش ہوا اور کہنے لگا کہ وہ صبح ساڑھے چار بجے ہوٹل پہنچ جائے گا۔
جاری ہے۔۔۔