Tuesday, 20 June 2017

جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ: چوتھا حصہ

 
 فائل: بھارتی شہری احمد آباد میں پاکستان کا پتلا جلاتے ہوئے۔
جنوبی ایشاء میں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں امریکی تشویش؟    
دنیا کے جن ممالک نے جوہری ہتھیار بنائے، اُن کا جواز یہی رہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی سے جوہری ہتھیاروں کے حامل مخالف ممالک کے ساتھ جنگ کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ عرف عام میں اسے نیوکلیئر ڈیٹرنس کہا جاتا ہے۔ یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے۔ مثلاً جوہری ہتھیاروں کے حامل ملک برطانیہ اور فرانس میں جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان دونوں ممالک میں کوئی سرحدی تنازعہ بھی موجود نہیں ہے۔ لہذا ان ممالک میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی مؤثر طور پر جنگ کے کسی خطرے کو ٹالنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ان حالات میں یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ ان دونوں ممالک کے پاس کتنی زیادہ یا کتنی کم تعداد میں جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
لیکن جنوبی ایشیا میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے پاس 100 سے زائد جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ تاہم ان دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کا سرحدی تنازعہ موجود ہے جس کی وجہ سے کئی مرتبہ بھارت اور پاکستان مکمل جنگ کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں۔پھر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے بعد اس خطے میں ان ہتھیاروں کی حفاظت اور سلامتی سے متعلق امریکہ اور دیگر ملک پوری طرح مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ خاص طور پر امریکہ کو یہ خدشہ ہے کہ پاکستان یا بھارت سے جوہری ہتھیاروں کے کچھ حصے یا مکمل ہتھیار غیر ریاستی عناصر کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جن سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ قریبی علاقوں میں ایسی تباہی کا امکان پیدا ہوتا ہے جس کے اثرات کئی دہائیوں تک رہ سکتے ہیں۔
چنئی میں قائم بھارت کا کُدنکُلم روسی ساختہ ایٹمی پلانٹ
چنئی میں قائم بھارت کا کُدنکُلم روسی ساختہ ایٹمی پلانٹ
یہی وجہ ہے کہ بیرونی دنیا بھارت اور پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں شدید دلچسپی رکھتی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے غلط استعمال کا خطرہ محض جنوبی ایشیا تک ہی محدود نہیں رہا۔ جزیرہ نما کوریا میں بھی شدید نوعیت کے خطرات موجود ہیں کیونکہ شمالی کوریا کے بارے میں بھی یہ تاثر ہے کہ وہ جارحانہ انداز میں جوہری ہتھیاروں اور اُن کے استعمال کیلئے جدید میزائلوں کی تیاری میں مصروف ہے۔ تاہم جس بات کا خوف شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر نیوکلیئر ڈیٹرنس کسی وجہ سے بے اثر ہو جاتا ہے اور جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک میں روایتی ہتھیاروں کی جنگ ہوتی ہے جس میں ایک فریق دوسرے پر حاوی ہوتا ہے تو دوسرا فریق جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا آپشن استعمال کر سکتا ہے۔ یہ بعض حلقوں کیلئے انتہائی خوفناک صورت حال ہے اور امریکہ میں بہت سے حلقے محسوس کرتے ہیں کہ اس صورت حال کے امکانات جنوبی ایشیا میں بھرپور انداز میں موجود ہیں۔
امریکہ کے معروف تھنک ٹینک یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس (USIP) کے جنوبی ایشیا سے متعلق پروگرام کے ڈائریکٹر معید یوسف کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا یا کسی دیگر خطے میں کسی بھی قسم کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے ہونے والی تباہی ساری دنیا کیلئے اس قدر زیادہ ہو گی جس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ اس بارے میں امریکہ کو لاحق ہونے والی تشویش کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے امریکہ کو اپنے اُن شہریوں کے بارے میں تشویش ہے جو خاصی تعداد میں بھارت یا پاکستان میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی بھی امریکہ کیلئے باعث تشویش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی ممکنہ ایٹمی جنگ کی صورت میں دنیا مکمل طور پر بدل کر رہ جائے۔ یہ پہلے جیسی قطعاً نہیں رہے گی۔
اُدھر کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے وابستہ محقق ٹوبی ڈالٹن کو تشویش ہے کہ بھارت اور پاکستان میں کسی بحرانی کیفیت کے دوران جوہری ہتھیاروں کے بارے میں غیر دانشمدانہ یا غلط فہمی پر مبنی فیصلے سے نیوکلیئر ڈیٹرنس کے زائل ہو جانے کا شدید خطرہ بھی موجود ہے۔ یوں جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر ڈیٹرنس کے ناکام ہوجانے کے خطرے سے امریکی حلقوں میں خاصی پریشانی پائی جاتی ہے۔ ٹوبی ڈالٹن کاکہنا ہے کہ ایسی کیفیت کسی تکنکی غلطی، جوہری ہتھیاروں کے حفاظتی نظام میں کسی خرابی یا کمزوری، انسانی خطا یا کسی چین آف کمانڈ میں پیدا ہونے والی غلط فہمی سے جنم لے سکتی ہے اور امریکہ میں اس بارے میں شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی کی پروفیسر ثانیہ عبداللہ کہتی ہیں کہ اگرچہ بھارت نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں رہے گا کیونکہ اگر نوبت جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر پہنچ گئی تو ان کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی برقرار نہیں رہے گی۔ امریکہ میں بہت سے حلقے بھی یہ تشویش محسوس کرتے ہیں۔
فائل: واہگہ باڈر
فائل: واہگہ باڈر
امریکی کی سابق معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا روبن رافل کہتی ہیں کہ جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی سے امریکہ کو ہونے والی تشویش کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک بڑی وجہ یہ سوال ہے کہ کیا بھارت اور پاکستان کی طرف سے تیار کئے جانے والے جوہری ہتھیار فی الواقعی بھارت اور پاکستان میں موجود رہیں گے اور انہیں دیگر ممالک کو فراہم نہیں کیا جائے گا؟ پھر ’’اسلامی بم‘‘ کا تصور بھی امریکہ میں پریشانی کا باعث ہے۔ روبن رافل کے مطابق اس بات کا امکان موجود ہے کہ اگر پاکستانی میں اسلامی ریاست قائم ہو جاتی ہے تو وہ اپنے جوہری ہتھیار سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک کو بھی فراہم کر سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں بھارت اور پاکستان دونوں بڑی حد تک غریب اور ترقی پزیر ممالک ہیں جہاں کروڑوں افراد اب بھی خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یوں امریکہ کو تشویش ہے کہ اگر ترقی یافتہ اور امیر ملک ان دونوں کو مالی مدد فراہم کر رہے ہیں تو بھارت اور پاکستان کو مالی وسائل جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر صرف نہیں کرنے چاہئیں جن کی نہ تو ان دونوں ملکوں کو ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی موجودگی خطے میں استحکام پیدا کر سکتی ہے۔ (جاری ہے)

جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ: تیسرا حصہ

 
اس بڑے کھیل میں چین کا کردار                             چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے سپاہی
 
اس سلسلے کے پہلے اور دوسرے حصے میں ہم نے بھارت اور پاکستان کی دفاع اور سلامتی سے متعلق حکمت عملی کا جائزہ لیا۔ اس تیسرے حصے میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ چین جنوبی ایشیا میں روایتی اور جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کو کیسے دیکھ رہا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ بھارت کی دفاعی تیاریاں پاکستان کے علاوہ چین کو مد نظر رکھ کر کی جارہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت طویل فاصلے کے میزائلوں کی تیاری پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ تاہم چین کی دفاعی اور حربی تیاریاں بھارت کو مد نظر رکھ کر نہیں بنائی جا رہیں۔ بھارت کو ہتھیاروں کے حصول کیلئے روس، امریکہ، فرانس ، جرمنی اور کئی دیگر ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ لہذا بھارت چونکہ مختلف ممالک سے مختلف نوعیت کے ہتھیار درآمد کرتا ہے، اُن کا معیار گھٹیا ہوتا ہے۔ علاوہ اذیں بھارت کی اپنی اسلحہ سازی بھی فرسودہ ہے۔ لہذا دفاعی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت کیلئے چین کی ہمسری کرنا محض ایک خواب ہی رہے گا کیونکہ چین کسی بھی قسم کا اسلحہ درآمد کرنے کے بجائے خود تیار کر رہا ہے جس کا معیار دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
چین کا جے 20 سٹیلتھ جنگی طیارہ
چین کا جے 20 سٹیلتھ جنگی طیارہ
 
ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ چین اس خطےکے ممالک کے ساتھ امریکہ کے دفاعی اشتراک کے بارے میں حساس رہا ہے۔ مثال کے طور پر جب بھارت نے امریکہ کے ساتھ ملکر دفاعی مشقیں کیں تو چین نے اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کی۔ یہ چین کی سیاسی بصیرت ہے کہ اُس نے کبھی ایسی صورت حال میں فوری رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چین کی طرف سے تواتر کے ساتھ جاری ہونے والے قرطاس ابیض میں بھی کبھی بھارت کا خصوصی طور پر ذکر نہیں دیکھا گیا۔ بھارت کا ذکر خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ محض چین کے ساتھ تعاون کے حوالے سے ہی کیا گیا۔ ان دستاویزات میں بھارت کی دفاعی تیاریوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ چین نے کبھی بھی بھارت کی طرف سے خطرہ محسوس نہیں کیا۔ چین کو اس بات کا احساس ہے کہ بھارت دنیا میں بالعموم اور جنوبی ایشیا میں بالخصوص بڑے کردار کا متمنی ہے لیکن چین باور کرتا ہے کہ بھارت اندرونی طور پر خراب گورننس کی وجہ سے اس میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
بھارت کا زمین سے زمین تک مار کرنے والا میزائل اگنی 5
بھارت کا زمین سے زمین تک مار کرنے والا میزائل اگنی 
5
تاہم بھارتی افواج کو جدید تر اسلحہ سے لیس کرنے کی کوششوں میں امریکہ کی دلچسپی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ بھارت کے حوالے سے چین کو کسی رد عمل پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ اب سے دو ماہ قبل اپریل میں صومالی قزاقوں سے ایک جہاز کو چھڑانے میں جب چین اور بھارت کی بحری افواج نے ایک دوسرے سے تعاون کیا تو چین نے اس واقعے کی خبر دیتے ہوئے بھارت کا قطعاً ذکر نہ کیا تو بہت سے لوگوں کو شدید حیرت ہوئی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نے ہمیشہ بھارت کو نظرانداز کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت کہ چین نے کبھی بھارت کے ساتھ اسلحے کو جدید بنانے میں محاذآرائی کا سہارا نہیں لیا ہے اور چین خود اپنی پالیسی کے مطابق جدید ترین ہتھیار بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت اور چین میں کبھی بھی ہتھیاروں کی دوڑ شروع نہیں ہو سکتی۔
بھارت کا سپر سونک کروز میزائل براھموس
بھارت کا سپر سونک کروز میزائل براھموس

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسر اوریانا ماسٹرو کے مطابق آئیندہ برسوں میں امریکہ بھارت کو جدید ہتھیاروں کے حصول میں زیادہ تعاون فراہم کرنے کی کوشش کرے گا تا کہ چین کو محاذآرائی کی اس تکون میں گھسیٹا جائے۔ لیکن چین بھارت میں جدید ہتھیاروں کے حصول کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر چین کے کلیدی روزناموں پیپلز ڈیلی اور گلوب میل میں چھپنے والے مضامین میں بھارت کی جدید آبدوزوں کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا گیا کہ بھارتی آبدوزوں کو کس قدر آسانی سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر بھارت کے واحد طیارہ بردار جہاز کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا کہ خطے میں موجود دیگر طیارہ بردار جہازوں کے مقابلے میں بھارتی طیارہ بردار جہاز محض ایک مذاق ہی ہے۔ ان مضامین میں بھارت کے جدید میزائیلوں کے حوالے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا گویا چین کو اُن کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ خاص طور بھارت کے براہموس میزائل جو خصوصی طور پر چین کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے، اس کے بارے میں بھی چینی حلقوں نے سرسری تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اول تو یہ میزائل غیر مؤثر ہو گا کیونکہ اُس کے پاس C41SR نیٹ ورک موجود نہیں ہے جو اس میزائل کو مؤثر طور پر استعمال کرنے کیلئے ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ بھارت ایسے میزائل اسلئے تیار کر رہا ہے کیونکہ اُس کی لڑاکا فوجیں انتہائی کمزور ہیں اور اس کمزوری کو چھپانے کیلئے اسے براہموس جیسے میزائلوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ علاوہ اذیں جب بھارت نے اگنی۔5 انٹرکانٹی نینٹل بیلسٹک میزائل کا چوتھی بار تجربہ کیا جو خاص طور پر چین کے ہر علاقے کو ہدف بنانے کیلئے تیار کیا گیا ہے تو چینی میڈیا نے کہا کہ اس میزائل کے استعمال سے پہلے ابھی بہت زیادہ جانچ پڑتال اور مشق کی ضرورت ہو گی۔ علاوہ اذیں اس کی رفتار انتہائی کم ہونے کے باعث یہ قابل اعتبار حد تک خطرے کا باعث نہیں ہو گا۔ چین سمجھتا ہے کہ بھارت میں حربی صلاحیت کو کسی مؤثر سطح تک لانے کیلئےکوششیں انتہائی ناکافی ہیں اور اس کی وجہ بھارت کے سیاسی نظام کی کمزوری اور گورنس کا فقدان ہے۔
فائل: بھارتی وزیرِ دفاع منوہر پاریکر اور امریکی وزیرِ دفاع ایش کارٹر ایک جیٹ انجن کا معائنہ کرتے ہوئے
فائل: بھارتی وزیرِ دفاع منوہر پاریکر اور امریکی وزیرِ دفاع ایش کارٹر ایک جیٹ انجن کا معائنہ کرتے ہوئے
لیکن مشرقی ایشیا کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بھارت کا دفاعی بجٹ ویت نام اور فلپائن کے دفاعی بجٹ سے 10 گنا اور جاپان کے بجٹ سے 17 گنا زیادہ ہے۔ تاہم جب ویت نام یا فلپائن کوئی جدید ہتھیار حاصل کرتے ہیں تو چین کی طرف سے شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئےکہا جاتا ہے کہ اس سے چین کی سلامتی کو خطرہ درپیش ہو سکتا ہے۔ لیکن بھارت کی طرف سے کسی بھی قسم کے جدید اسلحے کے حصول پر چین بڑی حد تک خاموش رہتا ہے۔ پروفیسر اوریانا ماسٹرو کا کہنا ہے کہ چین کو بھارت کی طرف سے اگر کوئی پریشانی ہو سکتی ہے تو وہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعلقات ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ کی کوشش ہو گی کہ وہ چین کو اُس مقام پر لانے میں کامیاب ہو جس پر وہ بھارت کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ کو اہمیت دینے لگے۔ اس سلسلے میں امریکہ بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے اسے اُس سطح پر لیجا سکتا ہے جہاں چین امریکہ پر تنقید کرنا شروع کر دے اور یوں اس کے نتیجے میں وہ بھارت کو اہمیت دینے لگے۔
تاہم دفاعی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت میں اندرونی طور پر امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق جاری رکھنے کی خواہش بھی خاصی کمزور ہے۔ یوں سوال یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت میں قریبی تعلقات کی کوششوں اور چین اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے اقتصادی اور فوجی تعلقات کے پیش نظر اصل فائدہ چاروں میں سے کس ملک کو پہنچ رہا ہے۔ زیادہ تر دفاعی ماہرین اس بات پر متفق ہیں حتمی فائدہ صرف چین کو ہی پہنچ رہا ہے۔ (جاری ہے)

Thursday, 15 June 2017

جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ: حصہ دوم


روس کا ٹی 50 سٹیلتھ جنگی طیارہ

کیا پاکستان تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے؟

گزشتہ مضمون میں ہم نے بھارت کی دفاعی حکمت عملی کا جائزہ لیا تھا۔ مستقبل میں بھارت اپنی حربی قوت میں اضافے کیلئے Fifth Generation Fighter Aircraft یعنی FGFA کی تیاری کیلئے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں روس کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر نظر ثانی کی گئی ہے اور روس کے تعاون سے تیار کئے جانے والے اس انتہائی جدید نوعیت کے stealth بمبار جہاز کی تیاری کے ٹائم فریم میں کمی کی گئی ہے۔ اس مقصد کے تحت بھارت نے تیاری میں 50 فیصد بھارتی شمولیت کی شرط کو بھی نرم کر دیا ہے اور اب ان جہازوں کی پہلی کھیپ مکمل طور پر روس میں ہی تیار کی جائے گی۔ دفاعی ماہرین ان جہازوں کی بھارتی فضائیہ میں متوقع شرکت کو انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں ۔ اُن کے خیال میں ان جہازوں کے ذریعے جنوبی ایشیا میں جنگ کے خطرات میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس قدر جدید جنگی جہازوں کے حصول سے اُنہیں استعمال کرنے کی ترغیب بھی بڑھ سکتی ہے۔
افغانستان میں 31 مئی کو ایک بڑا دہشت گرد حملہ ہوا
افغانستان میں 31 مئی کو ایک بڑا دہشت گرد حملہ ہوا

اُدھر افغانستان میں بدامنی کی صورت حال خانہ جنگی کی کیفیت اختیار کر سکتی ہے۔ داعش نے وہاں قدم جمانے شروع کر دئے ہیں۔ دوسری جانب بھارت کے دفاعی ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں اندرونی خلفشار کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ رفتہ رفتہ اس ملک کو تباہی کے دہانے کی طرف لے جا سکتا ہے۔
بھارتی بحریہ کی پہلی سکارپیو آبدوز
بھارتی بحریہ کی پہلی سکارپیو آبدوز

تاہم پاکستان کے کئی دفاعی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کیلئے سب سے بڑا خطرہ بھارتی بحریہ کی طرف سے ہے جو جدید ایٹمی آبدوزوں کی متوقع شمولیت کے بعد مزید طاقتور ہو جائے گی۔ وہ ماضی میں پاک۔بھارت جنگوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 1965 کی جنگ کے دوران انڈونیشیا کی بحریہ نے پاکستان کی مدد کرتے ہوئے بھارتی بحریہ کی جانب سے اُس وقت کے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان رابطہ منقطع کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا۔ تاہم 1971 کی جنگ میں بھارتی بحریہ پاکستان کی ناکہ بندی کرنے میں کامیاب رہی تھی اور یوں مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کو کمک پہنچانا ممکن نہیں رہا تھا۔ اب جدید ترین جنگی جہازوں اور ایٹمی آبدوزوں کی دستیابی سے بھارتی بحریہ پاکستانی بحریہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور ہو چکی ہے اور مستقبل میں کسی جنگ کی صورت میں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر سکتی ہے۔

دوسری جانب پاکستان۔چین راہداری کے منصوبے سے بھی بھارت بڑی حد تک گھبراہٹ کا شکار ہے۔بھارتی لیڈروں کا خیال ہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان میں چین کا اثرورسوخ بڑھتا جائے گا ۔ بھارت کے دفاعی تجزیہ کاروں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ گوادر میں چین اپنا بحری اڈا قائم کر لے گا جس سے اس خطے میں طاقت کا توازن بھارت کے خلاف ہو جائے گا۔

اس صورت حال کے توڑ کیلئے بھارت سمجھتا ہے کہ اُس کی امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری خطے میں توازن کو یکسر بدلنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ تاہم امریکہ کا پاکستانی مسلح افواج سے تعاون اس سلسلے میں بڑی رکاوٹ خیال کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا راعد کروز میزائل
پاکستان کا راعد کروز میزائل

اس ساری صورت حال کے تناظر میں پاکستان نے بھی روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں کو جدید بنانے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ لیکن بھارت کے برعکس پاکستان کو سلامتی کے چیلنجوں کے ساتھ ساتھ اقتصادی عدم استحکام کا بھی سامنا ہے۔ ایسی ریاستیں جو معاشی طور پر مستحکم ہیں، اُن میں ہتھیاروں کو جدید بنانے کا رجحان مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ امریکہ اور چین ایسے ممالک کی مثالیں جن کی معیشت مضبوط ہے۔ لہذا جدید ہتھیاروں کی تیاری سلامتی کے مسائل سے یکسر مختلف ہے۔ بھارت بھی ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں معیشت خاصی حد تک مستحکم ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہ بھی ایسا ہی ماڈل اپنائے۔ لیکن پاکستان اور چین کے ساتھ محاذآرائی کی وجہ سے اُس کی ترجیحات مختلف ہیں۔

پاکستان کو سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹتے ہوئے اپنی معیشت کو بہتر بنانے کی کوششوں میں خطے سے باہر کے ممالک کی مدد بھی درکار ہے اور پاکستانی حکام سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو نئی شراکت داریوں میں داخل ہونا ہو گا ۔ پاکستان میں اب یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ موجودہ حالات میں امریکہ سے مدد کی توقعات پوری ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے سعودی عرب کی حمایت سے نیٹو کی طرز پر اسلامی ممالک کے اتحاد کی کوششیں بھی شروع کر دی ہیں جس میں چین کیلئے ایک مؤثر کردار موجود ہو۔ اس کے علاوہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان نے روس جیسے دیگر ممالک سے تعاون بڑھانے کی پالیسی بھی اپنائی ہے۔یوں اس خطے میں نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں لیکن بعض ماہرین کو خدشہ ہے کہ سعودی عرب کے تعاون سے بننے والے اسلامی اتحاد کے نتیجے میں پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد کی راہ ہموار ہونے کا خطرہ بھی موجود ہے۔

لہذا سوال یہ ہے کہ ان تمام کوششوں سے پاکستان کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ بظاہر یوں لگتا ہے کہ پاکستان بھارت کی حربی قوت میں مسلسل اضافے کے جواب میں کسی ایسے حل کیلئے کوشاں ہے جو اُس کے دستیاب مالی وسائل کے اندر رہتے ہوئے پورا کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے کروز میزائل کا نظام تشکیل دیا ہے اور اب یہ سوپر سونک جہازوں کی تیاری کیلئے منصوبہ کررہا ہے تاکہ بھارت کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم کا اسٹریٹجک بنیادوں پر مقابلہ کر سکے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے محدود طاقت کے جوہری ہتھیار تیار کر رکھے ہیں اور حالیہ برسوں میں دیکھا گیا کہ ان کی وجہ سے بھارت کی جانب سے کسی بڑی جنگ کا ہونا ممکن نہیں رہا ہے۔ یوں پاکستان کی دفاعی حکمت عملی روایتی اور جوہری ہتھیاروں کی مشترکہ جدیدیت پر مبنی ہے۔

ان حالات میں بھارت کی حکمت عملی یہ ہے کہ جوہری حدود سے نیچے رہتے ہوئے محدود پیمانے کی جنگی کارروائیاں کی جائیں لیکن دفاعی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایسی حکمت عملی دیر پا ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ دونوں جانب ایک دوسرے کی دفاعی صلاحیتوں بارے میں شفافیت موجود نہیں ہے اور اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ بھارت ایسی کسی کارروائی میں کوئی ریڈ لائن پار کر جائے۔ پاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ سلامتی کے شدید خطرات کی صورت میں دفاعی ہتھیاروں کے استعمال کی پالیسی اور جوہری ڈیٹرنس میں توازن کیسے برقرار رکھا جائے۔

گزشتہ برس سے بھارت نے ایک اور حکمت عملی اپنائی ہے جس میں اُس نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پار پاکستانی علاقے میں سرجیکل اسٹرئیک کرنے کا دعویٰ کیا۔ پاکستان نے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ نہ تو ہوا ہے اور نہ ہی بھارت کی طرف سے ایسا کرنا ممکن ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بھارت کی جانب سے ملک کے اندر اور دنیا بھر میں حربی معاملوں میں کنفیوژن کی فضا پیدا کرنے کی دانستہ کوشش ہے جس میں بھارت کو طاقتور جتایا جائے اور پاکستان کو کمزور۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ بھی حقیقت ہے کہ فی الوقت پاکستان کے تمام اہم ہمسائیوں سے تعلقات کشیدہ ہیں جن میں بھارت کے علاوہ افغانستان اور کسی حد تک ایران بھی شامل ہیں۔ افغانستا ن کے دارالحکومت کابل میں گزشتہ کچھ عرصے سے ہونے والے دھماکوں کے سلسلے میں افغانستان مسلسل پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا رہا ہے۔ پاکستان کو بھی گزشتہ دو عشروں کے دوران انتہائی شدید نوعیت کی دہشت گردی کا سامنا رہا ہے ۔ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف اور اب موجودہ آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ کی قیادت میں ہونے والی کارروائیوں میں پاکستان کو دہشت گردی پر قابو پانے میں خاصی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تاہم فرقہ وارانہ دہشت گردی کے دوبارہ سر اُٹھانے کے امکانات بدستور موجود ہیں خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستانی قیادت سعودی عرب کی حمایت میں اسلامی ممالک کے اتحاد کی تشکیل کیلئے کوشاں ہے جسے بعض حلقے ایران کے خلاف محاذآرائی بڑھانے کی کوششیں بھی قرار دے رہے ہیں۔
یوں ایسے حالا ت میں بھارت کے انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز سے وابستہ بریگیڈئر ریٹائرڈ گرمیت کنول کا یہ کہنا لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر شکست و ریخت کے ایسے عمل سے دوچار ہے جو اسے مکمل تباہی کی جانب لے جا سکتی ہے۔

Monday, 12 June 2017

جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی خطرناک دوڑ: پہلا حصہ


بھارت کے یومِ جمہوریہ پر میزائلوں کی نمائش

 پاکستان میں نواز شریف حکومت نے اپنا پانچواں بجٹ پیش کر دیا ہے۔اس بجٹ میں دفاعی اخراجات میں لگ بھگ 9 فیصد کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ یوں دفاعی بجٹ کیلئے کل 9.2 ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے جو ملک کے GDP کے 2.3 فیصد کے برابر ہے۔ اُدھر بھارت نے بھی اس سال فروری میں 2017-18 کیلئے دفاعی بجٹ کا اعلان کیا جو 53.5 ارب ڈالر ہے۔ یہ بھارت کے GDP کا 1.56 فیصد ہے۔ تاہم بھارت کا GDP پاکستان کے مقابلے میں 8 گنا زیادہ ہے۔بھارت کی معیشت مسلسل سات فیصد سے زائد شرح کے ساتھ ترقی کر رہی ہے جبکہ پاکستان کی معیشت مسلسل بحرانوں کا شکار رہنے کے باعث ترقی کی شرح محض 4-4.5 کے درمیان ہی رہی ہے۔
جنوبی ایشیا کے ان دونوں ملکوں کے دفاعی اخراجات کے بارے میں دنیا بھر میں بالعموم اور امریکہ اور چین میں بالخصوص بے پناہ دلچسپی پائی جاتی ہے جس کی کلیدی وجوہات میں دونوں ملکوں کا ایٹمی قوت ہونا اور اس خطے میں موجود دیگر سیکورٹی خدشات ہیں۔ اعدادوشمار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بھارت جدید اسلحہ کی خریداری کے سلسلے میں زیادہ وسائل رکھتا ہے جبکہ پاکستان کو اپنی دفاعی ضروریات کیلئے امریکہ اور چین کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان اور بھارت کے مابین دو جنگیں اور کرگل کا معرکہ ہو چکا ہے اور جنوبی ایشیا میں سیکورٹی کے خدشات بدستور موجود ہیں ، دفاعی اخراجات اور جدید اسلحہ کی خریداری میں بڑی حد تک مقابلہ بازی کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ دفاعی اخراجات میں مسلسل اضافے کی اصل وجہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اسٹریٹیجک ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ ہے یا پھر اپنی دفاعی صلاحیتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنا۔ اس سلسلے میں پہلے بھارت کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔
بھارت میں دفاعی حکمت عملی کے دو اہم پہلو دکھائی دیتے ہیں جن میں دفاعی صلاحیت کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور اسٹریٹجک بنیادوں پر مقابلہ بازی شامل ہیں۔ رواں مالی سال کے دفاعی بجٹ کی تفصیلات واضح طور پر ان دونوں پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ سب سے پہلے تو بھارتی مسلح افواج کے پاس موجودفرسودہ اسلحے کی جگہ فوج کو جدید اسلحہ سے لیس کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ موجودہ اسلحے کی فرسودگی کو ختم کیا جا سکے۔ یوں اس کی جگہ خریدا گیا نیا اسلحہ زیادہ جدید ہو گا جس سے دفاعی صلاحیت بھی بہتر ہو گی۔ تاہم دفاعی ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ فرسودگی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے لڑاکا ہتھیاروں کی اشد ضرورت ہو گی جو بھارت کی حربی صلاحیت کے معیار کو بھی بلند درجے تک لیجا سکے۔بھارت کے انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انیلسز سے وابستہ دفاعی امور کے ماہر ریٹائرڈ بریگیڈئر گرمیت کنول کا کہنا ہے کہ بھارت اس وقت مؤخر الذکر اقدام کا متحمل نہیں ہو پا رہا کیونکہ فی الوقت تمام دستیاب دفاعی وسائل اسلحے کی فرسودگی کو ختم کرنے پر خرچ کئے جا رہے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی موجودہ حکومت نے حربی صلاحیت کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے کچھ کوششیں شروع تو کی ہیں لیکن اُن کی رفتار انتہائی سست ہے۔
بھارتی فضایہ کا SU-30MKI لڑاکا طیارہ
بھارتی فضایہ کا SU-30MKI لڑاکا طیارہ
اگر بھارت کی دفاعی خریداری کے رجحان کو دیکھا جائے تو جدید اسلحے کے حصول کے زیادہ تر اقدامات توپ خانے کے شعبے میں دکھائی دیتے ہیں۔1986 میں بوفرز 155 بھاری توپیں متعارف کرائے جانے کے بعد اس سال امریکہ سے سینکڑوں جدید ترین M777 توپوں کے آرڈر دئے جا چکے ہیں۔ تاہم اب بھی کئی ہزار فرسودہ بوفر گنز توپ خانے کا حصہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ MBT ٹینک اور فضائیہ کے مگ 27 خاصی حد تک فرسودہ ہو چکے ہیں اور اُن کی جگہ جدید تر ٹینکوں اور جہازوں کے حصول کیلئے خاطر خواہ کوششیں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ اسی طرح امریکہ سے جدید ترین گلوب ماسٹر، اپاچی، چنوک اور روس سے کیموف ہیلی کاپٹروں کے معاہدے ہو چکے ہیں لیکن اُنکی ترسیل ابھی شروع نہیں ہوئی ہے۔ تاہم زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ اگنی VI میزائلوں کی تیاری مکمل ہو چکی ہے اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایک یا دو سال کے اندر یہ فوج کے حوالے کر دئے جائیں گے۔ ان میزائلوں کی فراہمی کے بعد کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل فارغ کر دئے جائیں گے۔ 3,500 کلومیٹر تک مار کرنے والے بیلسٹک مزائل جانچ کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور جلد ہی فوج کے حوالے کر دئے جائیں گے۔
بھارت نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق اسٹریٹجک پلاننگ شعبہ تشکیل دے دیا ہے اور جوہری ہتھیاروں کو 5,000 کلومیٹر دور تک لیجانے کی صلاحیت کے حامل بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کا کام بھی جاری ہے۔
ان تمام اقدامات کے باوجود بظاہر بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل سے متعلق بیانیے میں فی الوقت کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔ تاہم پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک مقابلے بازی کی فضا بھی بدستور موجود ہے۔ لیکن کشمیر کے معاملے میں بھارت کی حکمت عملی واضح طور پر تبدیل ہو گئی ہے۔ بھارت میں تاثر یہ ہے کہ بھارتی کشمیر میں جاری مزاحمت اب ’پراکسی وار ‘ نہیں رہی اور مبینہ طور پر اس میں پاکستان ’براہ راست ملوث ‘ ہو چکا ہے۔لہذا بھارت اب کشمیر میں جارحانہ انداز اختیار چکا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ برس اوڑی میں ایک بھارتی فوجی اڈے پر حملے کے بعد بھارت نے دعویٰ کیا کہ اُس کی فوج نے کنٹرول کے پار پاکستانی کشمیر کے علاقے میں سرجیکل اسٹرائیکس کیں تاہم پاکستانی فوج نے اس سے انکار کیا ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کا دعویٰ درست ہے تو اُسے اس کا ثبوت پیش کرنا چاہئیے لیکن وہ اب تک ایسا نہیں کر پایا ہے۔
بھارتی دفاعی ماہرین کے مطابق بھارتی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ جامع مزاکرات بھی اُس وقت تک منقطع رکھے جائیں گے جب تک بقول اُس کے سرحد پار سے دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو جاتا۔لیکن غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے رویے میں اس تبدیلی کی ایک وجہ پاکستان کی چین سے بڑھتی ہوئی قربت بھی ہے۔ بھارت میں پاکستان۔چین اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں خاصی پریشانی پائی جاتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔