Thursday, 13 July 2017

فیس بک پر کاروبار کے لیے تربیت

 فیس بک

لاہور کی رہائشی تہمینہ چوہدری گجومتہ کے علاقے میں ایک چھوٹی سی مصالحوں کی فیکٹری چلاتی ہیں

مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کو زیادہ تر لوگ صرف باہمی رابطے کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں تاہم کچھ لوگوں کے لیے یہ آمدن کا ذریعہ بھی ہے۔ دنیا بھر میں فیس بک کے ذریعے لوگ کاروبار سے لاکھوں کما رہے ہیں۔ اب ان میں پاکستانی خواتین بھی شامل ہونے جا رہی ہیں جن کو اس کاروبار کے گر کوئی اور نہیں بلکہ خود فیس بک سکھانے پاکستان آ رہا ہے۔ 

لاہور کی رہائشی تہمینہ چوہدری گجومتہ کے علاقے میں مسالے کی ایک چھوٹی سی فیکٹری چلاتی ہیں جسے انھوں نے معمولی سی سرمایہ کاری سے 2011 میں انسٹا فوڈ کے نام سے شروع کیا۔ سبزیوں کو خشک کر کے ان سے مسالا بنانے کا کام تو تہمینہ بخوبی کر لیتی ہیں لیکن اپنی بنائی گئی اشیا کو آن لائن مارکیٹ کیسے کریں، یہ ان کے لیے ایک بڑی الجھن ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تہمینہ چوہدری نے بتایا کہ فیس بک پر ان کی کمپنی کا پیج تو ہے لیکن اس پر بزنس کیسے پروموٹ کریں، اسکا کوئی اندازہ نہیں۔
’فیس بک پیج تو ہے لیکن تکنیکی مہارت نہیں، نہ وہ ٹپس معلوم ہیں کہ کس طرح اپنی مصنوعات کو بہتر طریقے سے پروموٹ کر سکوں۔ جن لوگوں کو ہم ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں ان لوگوں تک اپنا پیغام کیسے پہنچائیں، یہ بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔
 فیس بک
تہمینہ کا دعویٰ ہے کہ ان کا بنایا گیا سبز مرچ پاؤڈر برصغیر میں اور کہیں دستیاب نہیں لیکن جب تک وہ اس کی خصوصیات لوگوں کو سمجھائیں گی نہیں، ان کی مصنوعات کی انفرادیت قائم نہیں ہو سکے گی۔
’مارکیٹنگ کے حوالے سے آج کل پرنٹ میڈیا لوگ اتنا پڑھتے نہیں ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر اشتہار دینے کی ہماری استطاعت نہیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہی وہ واحد ذریعہ رہ جاتا ہے جسے ہم استعمال کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہمیں اس کا موثرطریقہ کار معلوم ہو۔‘
جدید ٹیکنالوجی اور مارکیٹنگ کے نت نئے طریقوں سے ناواقفیت کے باعث پاکستان میں تہمینہ جیسی متعدد خواتین اپنی بنائی گئی اشیا کی صحیح سے تشہیر نہیں کر پاتیں۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ ہے سوشل میڈیا کا محدود استعمال اور تکنیکی سپورٹ کی کمی۔ تو کیا یہ مشکل کام ہے؟ شاید نہیں، اسی لیے اس کو ممکن بنانے کے لیے فیس بک کی ایک ٹیم نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان میں فیس بک کو ان خواتین تک رسائی کا ذمہ ماریہ عمر نے لیا ہے۔ ماریہ وومن ڈیجیٹل لیگ نام کی پاکستانی فرم کی بانی ہیں۔
ماریہ کے مطابق ان کی دعوت پرفیس بک کی ٹیم اگست کے آخر میں پاکستان آئے گی اور چھوٹے کاروبار کرنے والی خواتین کو تربیت دے گی کہ وہ انٹرنیٹ کو اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے کیسے استعمال کر سکتی ہیں۔
اس پروجیکٹ کے حوالے سے ماریہ عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ فیس بک کا شی بزنس پروگرام ہے جس کا حال ہی میں آغاز کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق پاکستانی خواتین بزنس سیکٹر میں اپنی قابلیت منوا چکی ہیں، چاہے وہ گھروں سے کیے جانے والا ریپلیکا کپڑوں کا کاروبار ہو یا کیک بنانے کا آن لائن بزنس۔ ماریہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی خواتین میں بزنس کی بھرپور قابلیت ہے، ضرورت ہے تو صحیح تربیت کی۔
فیس بک

پاکستانی خواتین کا بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ان کو مارکیٹنگ کرنی نہیں آتی۔ ان کو اپنی مصنوعات، چاہے کتنی بھی اچھی ہوں، اسے بیچنا نہیں آتا۔ اس ٹریننگ کے ذریعے ہم ان کو یہ اشیا بیچنا سکھائیں گے۔ دوسری طرف انھیں یہ بھی سمجھائیں گے کہ ان کی پراڈکٹ ڈیویلپمنٹ کیا ہے۔ آج کل لوگوں کی کیا ضروریات ہیں اور ان کو کس طرح کے پراڈکٹ لانی چاہییں تاکہ لوگوں کی وہ ضروریات پوری ہو سکیں۔‘
یہ اپنی نوعیت کی پہلی تربیت ہے جس کے لیے فیس بک کی ٹیم جلد پاکستان آ رہی ہے اور پہلے مرحلے میں ورکشاپ کراچی، لاہور اور پشاور میں منعقد کی جائیں گی۔
فیس بک کے شی بزنس پروگرام کے تحت اس کورس میں تین سطح کی ٹریننگ ہوں گی۔ پہلے مرحلے ان خواتین کو ٹرین کیا جائے گا جن کو فیس بک کی زیادہ معلومات نہیں، پھروہ خواتین جو پہلے سے ہی بزنس کی لیے فیس بک کا استعمال کر رہی ہیں اور آخر میں فیس بک کی ماہر کاروباری خواتین جن کو ایڈوانس لیول کی تربیت خود فیس بک کی ٹیم دے گی۔
 

Wednesday, 12 July 2017

تہہ خانے میں ایک ارب ڈالر کی کمپنی بنانے والا شخص

 Carl Rodrigues

کارل رودریگز کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے نوکری سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو ان کے اہلخانہ اور دوستوں نے اسے ایک احمقانہ فیصلہ قرار دیا تھا۔
’ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ میں پاگل ہو چکا ہوں۔ وہ یہ کہتے تھے، اس لڑکے کو ہو کیا گیا ہے۔‘
پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کارل رودریگز نے جو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کامیابی کی منازل طے کر رہے تھے، ایک دن اچانک یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اب دوسروں کے لیے کام کرنے کی بجائے اپنا کام کریں گے۔

لیکن اس وقت انھیں درپیش سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہی بات ان کے اہلخانہ کے لیے بھی باعثِ پریشانی تھی لیکن کارل کا عزم بلند تھا۔
سنہ 2001 میں انھوں نے کینیڈا کے شہر مسیساگا میں واقع اپنے مکان کے تہہ خانے کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا اور کچھ نیا کرنے کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔

Carl Rodrigues
ان کا کہنا ہے کہ ’میں دیکھنا چاہتا تھا کہ جب میں اپنی پسند کا کام کر رہا ہوں تو اس کا پھل کیسا ہو سکتا ہے۔میں یہ نہیں جانتا تھا کہ میں کیا کروں گا، بس سوچا ایک بار کوشش کر کے تو دیکھتے ہیں۔‘

آواز بدل کر لیا پہلا بڑا آرڈر

ایک مہینے کی محنتِ شاقہ کے بعد رودریگز کے دماغ میں ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کرنے کا خاکہ ابھرا جو صارفین کو لیپ ٹاپ کے ذریعے ان کے موبائل کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکے۔
انھوں نے اپنی کمپنی کا نام ’سوٹی‘ رکھا اور جب ایک سال کی محنت اور انتظار کے بعد ایک دن رودریگز کو برطانیہ کی بڑی سپر مارکیٹس میں شامل ایک گروپ کی کال آئی اور پھر رودریگز کی دنیا ہی بدل گئی۔
وہ کمپنی ان کا سافٹ ویئر صارفین کو فروخت نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ اسے اپنے نظام میں شامل کرنا چاہتی تھی تاکہ اس کا عملہ بہتر طریقے سے رابطے میں رہ سکے اور معلومات کا تبادلہ کر سکے۔

Man using Soti software
55سالہ رودریگز اس فون کال کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب انھیں برطانوی فرم نے کال کی تو وہ اپنے تہہ خانے میں اکیلے موجود تھے۔ اس فرم نے پوچھا کہ وہ سیلز کے شعبے کے کسی آدمی سے بات کرنا چاہتے ہیں۔رودریگز نے چند لمحے کے توقف کے بعد آواز بدل کر فون کال ریسیو کی اور اس طرح انھیں 20 ہزار یونٹس کی تیاری کا پہلا بڑا سودا ملا۔
اس کے بعد ’سوٹی‘ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس وقت اس فرم کا سالانہ ریونیو آٹھ کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے باوجود آج تک رودریگز نے اپنی کمپنی میں کسی بیرونی سرمایہ کاری کو شامل نہیں کیا۔ ان کی کمپنی پر مکمل طور پر ان کا اور ان کی بیوی کا مالکانہ حق ہے۔
سنہ 2006 میں انھیں مائیکروسافٹ کی جانب سے بھی کمپنی خریدنے کی پیشکش کی گئی لیکن رودریگز نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ اپنی کمپنی کو ان جیسا ہی بڑا بنانا چاہتے ہیں۔

تعلق پاکستان سے، جڑیں گوا میں

رودریگز کی پیدائش پاکستان میں ایک ایسے رومن کیتھولک خاندان میں ہوئی تھی جس کی جڑیں گوا کی پرتگالی کالونی سے ملتی ہیں۔ جب وہ 11 برس کے تھے تو ان کا خاندان کینیڈا چلا گیا۔
 Carl Rodrigues and his family
پاکستان چھوڑنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کارل نے کہا کہ یہ فیصلہ ان کی والدہ کا تھا جو 1970 کی دہائی میں ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال سے پریشان تھیں۔
'میرے والد پاکستان میں خوش تھے مگر والدہ ہم بچوں کو ایسی جگہ پروان چڑھتا دیکھتا چاہتی تھیں جہاں ہم محفوظ ہوں اور ہمیں اچھی تعلیم مل سکے۔'
کارل کے مطابق ان کے خاندان کو ٹورنٹو میں سکونت اختیار کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور صرف ایک چیز مشکل تھی اور وہ تھا کینیڈا کا سرد موسم۔
تاہم کارل کے لیے یہ بھی مشکل نہیں تھی کیونکہ وہ ہمیشہ سے برف باری دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ 'میں برف باری دیکھنے کے لیے مرا جا رہا تھا۔ یہ وہ جادو تھا جو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔'
Carl Rodrigues
کارل کی کی کمپنی کی مالیت کا اندازہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے
کارل نے ٹورنٹو یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس اور ریاضی کے مضامین میں ڈگری حاصل کی اور پھر سنہ 2001 تک بطور کنسلٹنٹ کام کرتے رہے یہاں تک کہ ’سوٹی‘ وجود میں آئی۔
آج ان کی کمپنی کی مالیت کا اندازہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اس کے 17 ہزار کاروباری صارفین ہیں اور دنیا کے 22 ممالک میں اس کے دفاتر میں سات سو ملازمین کام کرتے ہیں۔
کارل اب اپنے اس تہہ خانے سے کام نہیں کرتے۔ ان کی کمپنی کا صدر دفتر تہہ خانے سے نکل کر مسیساگا کی دو بڑی عمارتوں میں منتقل ہو گیا ہے۔
تاہم کارل کا اپنے خاندان سے ناتا آج بھی ویسے ہی قائم ہے۔ وہ اپنے مکان میں اپنی بیوی، دو بیٹوں اور اپنی ساس کے ہمراہ رہتے ہیں۔
|میری ساس کوئی زیادہ شرمیلی خاتون نہیں لیکن میرے خیال میں وہ اس سب سے خوش ہیں جو ہم نے حاصل کیا ہے۔

جبوتی: چین کے فوجی دستے پہلے غیرملکی فوجی اڈے کے لیے روانہ

 چین

چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق بیرون ملک چین کا پہلا فوجی اڈہ قائم کرنے کے لیے فوجی دستے بحری راستے سے جبوتی کے لیے رواں دواں ہیں۔
چین افریقی ملک جبوتی میں اس امریکی اڈے کے قریب اپنا پہلا فوجی اڈہ قائم کر رہا ہے جسے امریکہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنی بڑی اور اہم فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ اس اڈے کے ذریعے افریقہ اور اس کے مغربی علاقوں میں امن کے قیام اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کیے جانے والے اقدامات میں معاونت فراہم کی جائے گی۔
چینی خبررساں ادارے زن ہوا کا کہنا ہے کہ اس فوجی اڈے کو فوجی تعاون، بحری مشقوں اور ریسکیو مشن کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ چین نے افریقہ میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے اور حالیہ عرصے میں اپنی فوج میں بھی تیزی سے جدت لائی ہے۔
زن ہوا کا کہنا ہے کہ منگل کو چین کے جنوبی صوبے گوانگ ڈانگ کے علاقے زانجیانگ میں واقع بندرگاہ سے جہاز جبوتی کے لیے روانہ ہوئے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ چینی اڈہ کب کام کا آغاز کرے گا اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ کتنے فوجی دستے گذشتہ روز جبوتی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق جبوتی میں فوجی اڈے کا قیام دونوں ملکوں کے 'دوستانہ مذاکرات' کے بعد عمل میں لایا گیا۔ جبکہ اس سے قبل موصول ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ اس فوجی اڈے کی تعمیر کے لیے گذشتہ برس کام کا آغاز ہوا تھا۔
اس فوجی اڈے کو چین کے اس خطے میں اس کے مفادات کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔
مگر بدھ کو چائنا گلوبل ٹائمز میں چھپنے والے اداریے میں کہا گیا کہ 'چین کی فوجی ترقی 'چینی حفاظت' کو مضبوط بنانے کے لیے ہے نہ کہ دنیا کو کنٹرول کرنے کے لیے۔'
اخبار کا کہنا ہے کہ امریکہ، جاپان اور فرانس کے بھی جبوتی میں فوجی اڈے ہیں۔

 چین




یاد رہے کہ جبوتی شمالی افریقہ کا ایک چھوٹا سا اور یہ قدرے پرامن ملک ہے اور اپنے جغرافیے کے اعتبار سے بہت اہم ہے کیونکہ یہ ایک مصروف بحری گزرگاہ ہے۔
سنہ 2015 میں افریقی اقوام کے مرکزی اجلاس میں چین نے افریقہ کی ترقی کے لیے 60 ارب ڈالر ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
چین اس خطے میں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اس کے علاوہ اس نے وہاں انفراسٹرکچر کے مختلف پراجیکٹس کے لیے افرادی قوت اور فنڈز بھی مہیا کیے ہیں۔
اس میں افریقی ممالک کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے ریلوے کا نظام بھی شامل ہے۔ ان میں سے ایک جبوتی کو ایتھوپیا سے ملاتا ہے جبکہ انگولیا، نائجیریا، تنزانیہ اور زیمبیا کو ایک دوسرے سے ملانے کے لیے بھی ریلوے ٹریک بچھائے گئے ہیں۔
اس کے بدلے میں افریقی ممالک چین کو قدرتی ذخائر جن میں ایندھن اور معدنیات وغیرہ شامل ہیں فراہم کر رہے ہیں۔
امریکی اڈے سے چند میل دور
جبوتی میں چین کا قائم کیے جانے والا فوجی اڈہ امریکی فوجی اڈے جس کا نام کیمپ لیمنر ہے سے چند ہی میل کے فاصلے پر ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد اس اڈے کو قائم کیا تھا اب بھی اسے مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنی بڑی اور اہم فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال کررہا ہے۔
حال ہی میں امریکہ کی جانب سے یمن میں ہونے والی فوجی کارروائی بھی اسی کیمپ سے ہوئی تھی۔
البتہ چین کےحکام نےجبوتی میں اپنے فوجی اڈے کے قیام کی اہمیت کو گھٹا کر پیش کرتا آیا ہے۔