Tuesday, 5 September 2017

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (چودہویں اور آخری قسط)

تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ 1947ء میں تقسیم ہند کے نتیجے میں ہندوستان سے پاکستان کی جانب مسلمانوں نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی۔ پاکستان بننے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ درحقیقت یہی تھا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی آباد کاری اور بحالی کا کام کس طرح کیا جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ افراد نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور اِن ہجرت کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا۔
محض یہ ہجرت نہیں تھی بلکہ خون کا دریا پار کرنے کے مترادف بھی تھا کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اِس تقسیم اور ہجرت کے دوران 5 سے 8 لاکھ افراد نے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ ظالموں نے تو عورتوں کی عزتوں کو بھی نہیں چھوڑا اور اِسی ہجرت کے دوران ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ تقسیم کے دوران کم از کم نوے ہزار عورتیں اغواء بھی کی گئیں۔ ان ہی فسادات، خون ریزی اور ظلم و زیادتی کی جھلک پاکستان اور بھارت دونوں کے ادیبوں کی پنجابی، ہندی اور اردو زبان میں لکھی گئی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے۔ امرتا پریتم، سعادت حسن منٹو، خشونت سنگھ اور اشفاق احمد کی تحریریں اِس پُردرد ہجرت کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔


قائد اعظم کی تنخواہ ’ایک روپے‘ ماہانہ

قائد اعظم محمد علی جناحؒ نہ صرف بانی پاکستان کی حیثیت سے لائق احترام اور بلند مرتبے پر فائز ہیں بلکہ محمد علی جناح کی نفیس شخصیت، اصول پسندی اور اعلیٰ کردار بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
بیس برس کی عمر میں قائد اعظم ممبئی میں ایک نوجوان وکیل کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے۔ 1900ء میں برطانوی چیمبر میں سر چارلس کے چیمبر میں ملازمت کی تو تنخواہ 1500 روپے ماہوار مقرر ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے وقت قائداعظم محمدعلی جناحؒ برصغیر کے کامیاب ترین وکلاء میں شامل تھے اور تب ان کی ماہانہ آمدنی بھی لاکھوں روپے ماہانہ تھی۔ اس کے باوجود، جب قائداعظمؒ نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا تو اپنے لیے ایک روپیہ ماہانہ تنخواہ مقرر کی۔ اس بارے میں قائداعظمؒ فرمایا کرتے تھے کہ گورنر جنرل کا عہدہ دراصل ایک ذمہ داری ہے جس کی حیثیت اعزازی نہیں ہونی چاہیے، اس لیے انہوں نے اپنی ماہانہ تنخواہ ایک روپیہ مقرر کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ پاکستان پر کوئی احسان نہیں کررہے۔ یہ قائد اعظم کی بے غرضی اور پاکستان سے بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم سب اور خاص کر ہمارے حکمرانوں کو قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے شفاف کردار سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ طاقت، اقتدار اور قابلیت کے باوجود بھی عظیم رہنماؤں کا شیوہ یہی ہوا کرتا ہے۔

وہیل کا ارتقاء اور پاکستان

سیارہ زمین پر پایا جانے والا سب سے بڑا ممالیہ (دودھ پلانے والا جانور) وہیل ہے جس کے ارتقائی مراحل کے حوالے سے پاکستان کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہیل کا جدامجد آج سے تقریباً 5 کروڑ سال پہلے (موجودہ) پاکستان کے شمالی علاقے میں ’’کالا چٹا‘‘ پہاڑی کے مقام پر پایا جاتا تھا اور اسے ’’پاکی سیٹس‘‘ (پاکستانی وہیل) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کتے جتنی جسامت کا ممالیہ تھا جو غالباً دریا کے کنارے رہا کرتا تھا۔ وہیل کے ارتقاء میں دوسرا اہم نام ’’ایمبیولوسیٹس‘‘ (چلنے والی وہیل) کا ہے جس کے رکازات پنجاب میں ’’کلدانا فارمیشن‘‘ کے مقام سے ملے ہیں۔ یہ آج سے تقریباً 4 کروڑ 80 لاکھ سال پہلے یہاں پایا جاتا تھا اور تب یہ جگہ ساحلِ سمندر پر واقع ہوتی تھی۔ ایمبیولوسیٹس کسی چھوٹے مگرمچھ کی طرح دکھائی دیتا تھا جبکہ غالباً یہ اپنا زیادہ وقت پانی میں گزارا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ شمالی اور وسطی پاکستان، اور مغربی بھارت سے بھی ’’کچھی سیٹس‘‘ (کچھی وہیل) نامی معدوم جانوروں کے رکازات ملے ہیں جو یہاں 4 کروڑ 30 لاکھ سے 4 کروڑ 80 لاکھ سال پہلے کے زمانے میں رہتے تھے۔ یہ آج کی وہیل سے زیادہ قریب تھے لیکن جسامت میں خاصے چھوٹے تھے۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف مقامات سے وہیل کے ارتقائی رکازات (فوسلز) ملے ہیں جو ان ہی کے سلسلے میں ہیں۔ ان تمام دریافتوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جدید وہیل نے اپنے ارتقاء کی اہم ترین منزلیں ان مقامات پر طے کیں جو آج پاکستان کا حصہ ہیں؛ جو اپنے آپ میں ایک منفرد اعزاز ہے۔


سب سے زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی

آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ پاکستان میں ’’مریچھا‘‘ (Mareecha) نسل کی اونٹنی کو دنیا میں سب سے زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی بھی قرار دیا جاتا ہے جو اوسطاً 22 لیٹر یومیہ کی شرح سے 270 دن تک دودھ دے سکتی ہے جبکہ یہ عرصہ زیادہ سے زیادہ 540 دن تک ہوسکتا ہے۔ اپنی اسی خوبی کی بناء پر مریچھا اونٹنی کو مشرقِ وسطی اور افریقہ کے ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ چولستان کے صحرائی علاقے میں بھی مریچھا اونٹنیوں سے دودھ کی سالانہ اوسط پیداوار 4179 لیٹر حاصل کی گئی ہے۔ عالمی ادارہ برائے غذا و زراعت (ایف اے او) کا کہنا ہے کہ اگر اونٹ کی افزائشِ نسل پر توجہ دی جائے تو مستقبل میں دنیا کو غذائی مسئلے سے بھی نجات دلا سکتا ہے۔



مقبول ترین ملی نغمہ؛ دوسرا قومی ترانہ

1987 میں پاکستان کی 40 ویں سالگرہ کے موقعے پر پاکستان ٹیلی ویژن سے ملی نغمہ ’’دل دل پاکستان، جان جان پاکستان‘‘ پہلی بار نشر ہوا۔ نثار ناسک کی شاعری ہر مشتمل، شعیب منصور کی ہدایات میں فلمایا جانے والا یہ قومی نغمہ اس وقت کے نوجوان پاپ بینڈ ’’وائٹل سائنز‘‘ (Vital Signs) نے گایا تھا جس میں جنید جمشید، روحیل حیات، نصرت حسین اور شہزاد حسن شامل تھے۔ یہ نغمہ اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ اس نے ’’پاکستان کے دوسرے قومی ترانے‘‘ کے طور پر دنیا بھر میں شہرت حاصل کرلی۔ آج پاکستان کی 70 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے اور ’’دل دل پاکستان‘‘ کو بھی 30 سال پورے ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی اس نغمے کی تازگی بالکل اسی طرح برقرار ہے جیسے پہلی بار نشر ہونے پر تھی۔ بی بی سی کے مطابق 2003 میں کیے گئے ایک آن لائن سروے میں ’’دل دل پاکستان‘‘ کو مقبول ترین پاکستانی نغمے کا اعزاز حاصل ہوا۔
 https://youtu.be/OMx72StK68E

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (تیرہویں قسط)

دودھ کی پیداوار میں نمایاں عالمی مقام

دنیا میں 200 سے زائد ممالک ہیں لیکن کچھ ہی ایسے ہیں جو دودھ کی پیداوار میں خود کفیل ہیں۔ 2017ء میں جاری ہونے والی فہرست کے مطابق پاکستان کا کمال یہ ہے کہ دودھ کی پیداوار کے حوالے سے یہ دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ فہرست کے مطابق 2016 کے دوران پاکستان میں دودھ کی مجموعی پیداوار 4 کروڑ 20 لاکھ ٹن رہی تھی۔ لیکن اب اِسے آپ پاکستان کی بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی کہ اِس قدر پیداوار کے باوجود یہاں کی عوام کو نہ تو خالص دودھ ملتا ہے اور نہ ہی اِس سے بنی ہوئی دوسری چیزیں، بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں نامناسب ماحول کی وجہ سے یہ عظیم نعمت سب سے زیادہ ضائع ہوجاتی ہے۔
اِس فہرست میں پاکستان سے آگے صرف چین، امریکہ اور بھارت ہیں، لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ تینوں ممالک وسائل اور آبادی کے اعتبار سے بہت آگے ہیں اور اِس صورتحال میں پاکستان کا یہ مقام حاصل کرنا یقیناً ایک اہم بات ہے۔

پاکستان کی عالمی جغرافیائی اہمیت

پاکستان قدرتی طور پر ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو سیاسی، اقتصادی، تزویری (strategically) اور جغرافیائی اعتبار سے اننتہائی اہمیت کا حامل ہے؛ اور پچھلے 40 سال سے عالمی طاقتوں کی سرگرمیوں کا مرکز نگاہ ہے۔ اگر محل وقوع کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی سمندری حدود خلیج فارس کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ سمندری بندرگاہوں سے محروم وسط ایشیائی ریاستوں کو بحیرہ عرب اور بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی فراہم کرکے بین الاقوامی منڈی تک رسائی کےلیے راہداری فراہم کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کی سرحد مشترک ہے۔ کراچی اِس کی بڑی بندرگاہ ہے اور دنیا بھر کے بحری جہازوں میں ایندھن بھرنے کا ایک بڑا اڈہ ہے۔ اس کے علاوہ گوادر کی بندرگاہ بھی تیزی سے ترقی کے مراحل طے کر رہی ہے۔
پاکستان کو وسط ایشیا کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان ممالک تک کم سے کم فاصلہ طے کرتے ہوئے رسائی صرف پاکستان کے راستے ہی سے ہوسکتی ہے۔ وسط ایشیائی ممالک تیل اور قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال ہیں؛ اور اسی لیے یہ عالمی سیاسی چالوں کی نئی بساط بھی ہیں۔ پاکستان جغرافیائی محل وقوع سے مشرق وسطیٰ کے اُن ممالک کے قریب بھی ہے جو قدرتی وسائل سے بھرپور ہیں۔ یہ بیلٹ ایران سے شروع ہوتی ہوئی بحیرہ عرب کے جنوب سے سعودی عرب تک جاپہنچتی ہے جو عالمی منڈی میں سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ اگر سرمایہ کاری کی جائے تو ہماری تجارتی مارکیٹ ہمارے ہمسایہ ملکوں کی اشیاء کی برآمدات کے لیے عالمی منڈی کی حیثیت حاصل کرسکتی ہے، جس سے فائدہ ہمارے ملک کو بھی پہنچے گا۔
گہرے پانیوں کی بندر گاہ گوادر نہ صرف چین بلکہ وسط ایشیائی ریاستوں اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے لیے بہت کشش رکھتی ہے۔ ایران بھی گیس اور تیل دیگر ممالک کو برآمد کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اِس صورت حال میں پاکستان کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی ہے۔ چین کی خصوصی دلچسپی کا محور منصوبہ ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو پاکستان کی موجودہ جغرافیائی اہمیت کو دوچند کردے گا۔


انتظار حسین، اردو تصنیف پر بُکر پرائز کیلئے نامزد ہونے والے پہلے پاکستانی

انتظار حسین نہ صرف پاکستان  بلکہ اردو ادب کے وہ پہلے ادیب ہیں جنہیں بُکر پرائز (Booker Prize) کیلئے نامزد کیا گیا۔ یہ ایوارڈ دراصل برطانیہ کے معروف مصنفین کے انعام کا ایک حصہ ہے۔ یہ انعام کسی بھی قومیت کے ایسے مصنفین کو دیا جاتا ہے، جن کا کام انگریزی زبان میں موجود ہو۔
انتظار حسین کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو ادب (خاص کر افسانہ نگاری) کے اہم ترین ادیبوں میں کیا جاتا تھا۔ انتظار حسین 1923ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے اور میرٹھ کالج سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ہجرت کے بعد پاکستان آئے تو صحافت سے وابستہ ہوئے۔ افسانوں کے آٹھ مجموعے، چار ناول، آپ بیتی کی دو جلدوں کے تراجم انتظار حسین نے کیے اور سفر نامے بھی لکھے۔ وہ انگریزی میں کالم لکھتے رہے جبکہ ان کا ایک ناول اور افسانوں کے 4 مجموعے انگریزی میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔  بُکر پرائز وہ بین الاقوامی انعام ہے جو ہر دو سال بعد ایسے مصنفوں کو دیا جاتا ہے جو بقیدِ حیات ہوں اور جنہوں نے انگریزی میں کتابیں تحریر کی ہوں یا پھر ان کی کتابوں کے انگریزی تراجم دستیاب ہوں۔


اکیسویں صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت اور خاتون پاکستانی سائنسداں

11 فروری 2016 کے روز دو بین الاقوامی تحقیقی منصوبوں ’’لائیگو‘‘ (LIGO) اور ’’وِرگو‘‘ (Virgo) نے مشترکہ اعلان جاری کیا کہ آخرکار کششِ ثقل کی موجیں (گریوی ٹیشنل ویوز) دریافت کرلی گئی ہیں جن کی پیش گوئی لگ بھگ 100 سال پہلے آئن اسٹائن نے اپنے عمومی نظریہ اضافیت (جنرل تھیوری آف ریلیٹی ویٹی) میں کی تھی؛ اور اسے اکیسویں صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت بھی قرار دیا گیا۔ اس خبر میں ایک پاکستانی نژاد خاتون سائنسداں، ڈاکٹر نرگس ماول والا کا نام بہت نمایاں تھا کیونکہ وہ ’’لائیگو‘‘ تحقیقی منصوبے سے وابستہ کلیدی ماہرین میں شامل تھیں۔ نرگس ماول والا کا تعلق کراچی کی پارسی کمیونٹی سے ہے اور وہ او لیول اور اے لیول کرنے کے بعد امریکا چلی گئیں جہاں انہوں نے 1997 میں ’’میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘‘ (ایم آئی ٹی) سے پی ایچ ڈی کیا۔ اس کے بعد وہ فلکیات اور طبیعیات کے مختلف تحقیقی منصوبوں سے وابستہ رہیں جن میں ’’لائیگو‘‘ بھی شامل ہے۔ نرگس ماول والا اس وقت ایم آئی ٹی میں شعبہ طبیعیات کی شریک سربراہ اور ’’کرٹس اینڈ کیتھلین ماربل پروفیسر آف ایسٹروفزکس‘‘ بھی ہیں۔ ان کی سائنسی و تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں 2017 میں امریکا کی ’’نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کی اعزازی رکنیت بھی دے دی گئی ہے۔


لڑاکا طیاروں کی کم وقت میں مرمت

1965 کی پاک بھارت جنگ میں جہاں افواجِ پاکستان نے محاذ پر شجاعت کے جوہر دکھائے وہیں پاکستانی انجینئر، ماہرین اور تکنیکی عملہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ اس جنگ میں پاک فضائیہ سے وابستہ زمینی عملے نے لڑاکا طیاروں کی مرمت کرنے اور انہیں اگلے معرکے کےلیے تیار کرنے میں جس مستعدی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے؛ اور اس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا گیا ہے۔ جب پاک فضائیہ کا کوئی لڑاکا طیارہ اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ہوائی اڈے پر اُترتا تو وہاں تعینات زمینی (تکنیکی) عملہ فوری طور پر اسے ہینگر میں لے جاتا اور ضروری مرمت، ایندھن بھرنے اور اسلحے سے لیس کرنے کے بعد صرف 9 منٹ میں اگلی فضائی کارروائی کےلیے تیار کردیتا۔ اس کے مقابلے میں بھارتی فضائیہ کا زمینی عملہ یہ ساری کارروائی مکمل کرنے میں تقریباً 1 گھنٹہ لگادیتا۔ 1965 کی جنگ میں پاک فضائیہ نے اپنے سے کم از کم 4 گنا بڑی بھارتی فضائیہ کو دھول چٹا دی تھی؛ اور عالمی دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فتح میں جہاں پاک فضائیہ کے ماہر پائلٹوں کا کردار تھا وہیں زمینی عملے کی غیرمعمولی پھرتی کو بھی نظرانداز کیا جاسکتا کیونکہ کوئی لڑاکا جتنی دیر تک مرمت، ایندھن بھرائی اور اسلحے سے لیس ہونے کے مراحل سے گزرتا ہے، اتنی دیر کےلیے وہ میدانِ جنگ سے غیر حاضر ہوتا ہے۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی لڑاکا طیارے بھی اپنے ہر پھیرے کے بعد صرف 7 منٹ 45 سیکنڈ بعد اگلے پھیرے کےلیے تیار کردیئے جاتے تھے؛ اور اسی وجہ سے اسرائیلی فضائیہ کا پلہ اس جنگ میں بہت بھاری رہا۔

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (بارہویں قسط)

کوئلے کے وسیع ذخائر

جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے 1992 میں سندھ کے صحرائے تھر میں کوئلے کے ذخائر دریافت کیے جو ایک وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جبکہ مجموعی طور پر یہ 175 ارب ٹن جتنے ہیں۔ اگر ان میں صوبہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کوئلے کے دیگر ذخائر بھی شامل کرلیے جائیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں کوئلے کے ذخائر 185 ارب ٹن پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان ذخائر کا بڑا حصہ لگنائٹ قسم کے کوئلے پر مشتمل ہے جو اپنے معیار کے اعتبار سے اینتھراسائٹ کے بعد دنیا کا دوسرا بہترین کوئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا میں کم تر معیار والے ’’سب بٹومینس‘‘ اور لگنائٹ کوئلے کے مجموعی ذخائر 135 ارب ٹن سے کچھ زیادہ ہیں جبکہ تھر میں کوئلے کا ذخیرہ اس سے بھی 50 ارب ٹن زیادہ ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان اپنے کوئلے کے یہ ذخائر استعمال کرتے ہوئے آئندہ 100 سال تک اپنی بجلی کی تمام ضروریات پوری کرسکے گا۔
عالمی پروپیگنڈے کے برعکس، پاکستانی کوئلے میں سلفر اور راکھ کی مقدار خاصی کم ہے جبکہ فیصل آباد میں واقع تحقیقی ادارے ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ‘‘ (NIBGE) کے ماہرین 2005 ہی میں ایسے صنعتی طریقے وضع کرچکے تھے جنہیں استعمال کرتے ہوئے اس کوئلے میں شامل راکھ اور سلفر کی مقدار بہت کم کی جاسکتی تھی۔ افسوس کہ حکومتِ پاکستان نے اس جانب توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیمتی کوئلہ اب تک عالمی ماحولیاتی اعتراضات کی وجہ سے ملکی معیشت کو خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچا رہا۔


ڈاکٹر عادل نجم کا اعزاز؛ جسے اعزاز نہیں سمجھا گیا

یہ 2007 کا واقعہ ہے جب اقوامِ متحدہ نے سابق امریکی نائب صدر البرٹ گور اور ’’بین الحکومتی پینل برائے تغیر آب و ہوا‘‘ (آئی پی سی سی) کو ماحولیاتی تحفظ کے میدان میں گراں قدر خدمات پر امن کے نوبل انعام کا مشترکہ حقدار ٹھہرایا۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ آئی پی سی سی کو جن تحقیقی رپورٹوں کی بنیاد پر امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا، ان میں سے ایک رپورٹ کے مرکزی مصنف ڈاکٹر عادل نجم تھے، جو پاکستانی ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر عادل نجم اس ٹیم کا حصہ تھے جسے نوبل انعام برائے امن 2007 میں شریک ٹھہرایا گیا۔ 1980 کے عشرے میں مقامی اخبارات کےلیے کالم نگاری سے آغاز کرنے والے ڈاکٹر عادل نجم راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور سے سول انجینئرنگ میں سند حاصل کی۔ نوجوانی کے زمانے میں وہ پاکستان ٹیلی ویژن سے کئی معلوماتی اور مذاکراتی پروگراموں کے میزبان بھی رہے جبکہ بعد ازاں انہوں نے ایم آئی ٹی، امریکا سے پی ایچ ڈی کیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2009 میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ دیگر علاقائی و بین الاقوامی اعزازات اس کے علاوہ ہیں۔ وہ بوسٹن یونیورسٹی میں ’’پارڈی اسکول آف گلوبل اسٹڈیز‘‘ کے بانی چیئرمین بھی مقرر ہوئے اور تاحال اسی عہدے پر کام کررہے ہیں۔


اردو ادب کے مزاح نگاروں کا سب سے بڑا مرکز

پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو زبان کی ترویج اور ادب کو فروغ دینے والے اہل قلم حضرات اسی سرزمین پر بستے ہیں۔ اردو ادب میں ایک بڑا حصہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے شاعروں، ادیبوں، نقادوں، نثر نگاروں کا بھی ہے۔ اگر پاکستانی مزاح نگاروں کی بات کریں تو ان کی مثال دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں ملتی۔
اگر اردو مزاح نگاری میں چراغ حسن حسرت، شوکت تھانوی، مجید لاہوری، ابراہیم جلیس، شفیق احمد، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا اور پطرس بخاری سے لے کر ڈاکٹر یونس بٹ اور عطا الحق قاسمی جیسے کالم نگار، نثر نگاری کو عروج تک پہنچا چکے تو اردو مزاحیہ شاعری میں ضمیر جعفری، ظریف جبل پوری، دلاور فگار، مسٹر دہلوی، انور مسعود اور اطہر شاہ خان (جیدی) جیسے نام بھی اردو ادب میں مزاح کے بامِ فلک پر جگمگا رہے ہیں۔
یہ اور اِن کے علاوہ سینکڑوں دوسرے پاکستانی مزاح نگاروں نے اپنے انداز سخن سے اردو ادب کو چار چاند لگائے؛ اور اپنے منفرد طرز اسلوب میں عالمی، قومی، معاشرتی اور انسانی فطری پہلوؤں کا احاطہ بخوبی کیا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اردو مزاح کے ایسے قلم کار ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کے طرزِ نگارش میں ایسی بے ساختگی ہے کہ پڑھنے والا قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ زر گزشت، چراغ تلے، خاکم بدہن اور آبِ گم مشتاق احمد یوسفی کی سدا بہار تصنیفات ہیں۔ شوکت تھانوی کی شہرۂ آفاق تخلیق ’’چچا چھکن‘‘ ہے جس کی بیوقوفیوں اور بد حواسیوں نے ایک دنیا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا جب کہ شفیق احمد کی حماقتیں میں ’’روفی‘‘ کا کردار کسی طور بُھلائے جانے کے لائق نہیں۔
ضمیر جعفری کی ’’ کراچی کی بس میں سفر ہورہا ہے‘‘ اور ’’پرانا کوٹ‘‘ جیسی شہرہ آفاق نظمیں سادہ زبانی اور مزاح میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔

دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس

آج کمپیوٹر ہیکنگ اور وائرس کا استعمال بہت عام ہے، اگرچہ آج کے دور میں وائرس کا استعمال غلط طریقے سے استعمال ہوتا ہے لیکن دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس پاکستانی نوجوانوں نے 1986 میں کمپیوٹر پروگرامز کی غیرقانونی نقل سازی (کاپی) روکنے کےلیے کیا تھا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے باسط فاروق علوی اور امجد فاروق علوی ان دنوں کمپیوٹر سے متعلق ساز و سامان (بشمول سافٹ ویئر) کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ اس وقت کمپیوٹر اتنا جدید اور تیز رفتار نہیں تھا جتنا آج ہے۔ اسی کام کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ کمپیوٹر کا استعمال کرنے والے غیر قانونی سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں۔ انہیں ایسے لوگوں کو سبق سکھانے کا انوکھا طریقہ سجھائی دیا۔ اسی سوچ نے ’’برین‘‘ کو تخلیق کیا، جو دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس تھا۔ اس کا بنیادی مقصد صرف اتنا تھا کہ اگر کسی کمپیوٹر سے سافٹ ویئر کی غیرقانونی کاپی بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ وائرس اسی کے ساتھ منتقل ہوجائے اور اس پروگرام کو چلنے ہی نہ دے۔ اس ایجاد کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور سافٹ ویئر کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کو غیرقانونی نقل سے بچانے کےلیے ایسے ہی اقدامات کیے۔ البتہ جیسے جیسے کمپیوٹر نے ترقی کی اور اس کا استعمال بڑھا، ویسے ویسے جرائم پیشہ لوگوں نے بھی وائرس تیار کرنا شروع کردیئے اور صرف چند سال میں وائرس تیار کرنا جرائم پیشہ کارروائی ہی بن کر رہ گیا۔

قطبین کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرز والی سرزمین

دنیا کے قطبین یعنی قطب شمالی اور قطب جنوبی میں پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ برف کی شکل میں موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ برف پگھل جائے تو سمندر کی سطح کئی میٹر تک بلند ہوسکتی ہے جس سے دنیا کے بیشتر ساحلی شہر ڈوب سکتے ہیں۔ یہ تو رہی ایک بات لیکن سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ قطبین کے بعد پاکستان کے شمالی علاقوں میں سب سے زیادہ گلیشیئر ہیں، جو پاکستان کےلیے اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن بدقمستی سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن کی وجہ سے دوہرے خطرات کا خوف ہے۔ پہلا یہ کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوجائیں تو ملک میں سیلاب کے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں۔

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (گیارہویں قسط)

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، پی سی ایس آئی آر اور نیم

پاکستان کے ممتاز کیمیاداں، مصور اور ادبی ناقد ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ڈاکٹر سلیم الزماں بھارتی ضلع بارہ بنکی میں 19 اکتوبر 1897ء کو پیدا ہوئے اور جرمنی میں یونیورسٹی آف فرینکفرٹ سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد انڈین کونسل فار سائنس اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سے وابستہ ہوئے۔ ہجرت کے بعد پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی بنیاد رکھی اور ملک میں صنعتی ترقی کے لیے بہترین ادارے قائم کئے۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اپنی زندگی میں 300 سے زائد تحقیقی مقالے لکھے اور 40 سے زائد ادویہ یا مرکبات کی پیٹنٹ اپنے نام کیں جن میں نیم سے حاصل ہونے والے اجزاء سرِفہرست ہیں۔ انہوں نے ہولرینا پودوں پر غیرمعمولی تحقیق کی جن سے دل، دماغ اور بلڈ پریشر کے امراض کی علاج کی راہیں ہموار ہوئیں۔ بین الاقوامی کمپنیوں نے اِس دریافت سے خطیر رقم کمائی۔ ڈاکٹر صاحب کی انہی خدمات کے نتیجے میں 1966ء میں انہیں ’بابائے ہولرینا کیمیا‘ کا خطاب دیا گیا۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے انتخابات میں استعمال ہونے والی انمِٹ سیاہی کا فارمولا بھی بنایا جو آج تک استعمال ہورہا ہے۔ ملک کو سائنسی بنیادوں پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والا یہ درویش صفت سائنسداں جب 14 اپریل 1994ء کو اِس دنیا سے رخصت ہوا تو رہائش کے لیے اپنا ذاتی مکان تک نہ تھا۔


ڈیرہ غازی خان کی شاہراہِ حیرت

ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو جانے والی شاہراہ لگ بھگ 80 کلومیٹر طویل ہے لیکن ارضیاتی اور معدنی خزانوں سے مالا مال ہے۔ جیسے ہی آپ ڈیرہ غازی خان سے روانہ ہوتے ہیں تو پہلے اِس روڈ کے دونوں اطراف چھوٹی مشینیں دکھائی دیتی ہیں جو سڑک اور عمارات تعمیر کرنے والے اہم کنسٹرکشن مٹیریل کو چھوٹے پتھروں میں ڈھالتی ہیں۔ یہ معیاری مٹیریل عمارت، سڑکیں اور پل وغیرہ بنانے میں استعمال ہورہے ہیں۔
اسی پہاڑی سلسلے میں سیمنٹ بنانے کا اہم جزو جپسم بکثرت موجود ہے جو قریبی سیمنٹ فیکٹریوں کوفراہم کیا جارہا ہے۔ اِس کے علاوہ چونے کے پتھر کے اہم ذخائر بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔
یہ علاقہ پاکستان بھر میں یورینیم کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اگرچہ اِس روڈ پر یورینیم کی کم مقدار والی سرمئی مٹی دکھائی دیتی ہے تاہم اِس سے قریب بغل چُور کے علاقے میں اعلیٰ یورینیم کے ذخائر موجود ہیں۔ اِس سے آگے بڑھیں تو اِسی روڈ پر تیل و گیس کے ذخائر بھی اپنی شان دکھاتے نظر آتے ہیں۔
ایک مقام پر پہاڑ کے درمیان میں کتھئی رنگ کی ایک پٹی دیکھی جاسکتی ہے جسے ’کے ٹی‘ یعنی (کرے ٹیشیئس-ٹیریٹری) باؤنڈری کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو اب سے ساڑھے چھ (6.5) کروڑ سال قبل ایک عظیم سانحے کی یاد دلاتا ہے جس سے ڈائنوسار صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق آسمان سے گرنے والے ایک شہابِ ثاقب کی وجہ سے ڈائنوسار ختم ہوئے تھے۔ کے ٹی باؤنڈری کے آثار پوری دنیا میں موجود ہیں لیکن فورٹ منرو میں یہ بہت اچھی طرح نمایاں ہیں۔ یہ روڈ دنیا کا ایک عجوبہ ہے جہاں ایک ہی مقام پر اتنی ساری معدنیات اور ارضیاتی خزانے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ماربل، کوارٹز اور دیگر اہم معدنیات بھی بکثرت پائی جاتی ہیں۔


پاکستان کی ہوائی شاہراہ

سندھ میں جھمپیر اور گھارو کے اطراف میں پاکستان کی سب سے تیز ہوا چلتی ہے جسے سندھ شاہراہِ باد (وِنڈ کوریڈور) کا نام دیا گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں اب تک 50 سے زائد ہوائی ٹربائن لگائی جاچکی ہیں اور ہر ٹربائن اوسطاً ایک سے ڈیڑھ میگا واٹ بجلی بناتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے یہاں ترک کمپنی زورلو انرجی نے ٹربائن لگانے کا آغاز کیا اور اب قریباً تین چار کمپنیاں ٹربائن لگارہی ہیں۔ تمام تر سست رفتاری اور عدم تشہیر کے باوجود سندھ ونڈ کوریڈور کو دنیا بھر میں صاف اور سستی بجلی بنانے کا ایک اہم مرکز تسلیم کرلیا گیا ہے۔


قدیم مہر گڑھ کی قدیم ٹیکنالوجی جو آج بھی استعمال ہورہی ہے

گزشتہ برس سائنسی حلقوں میں ایک خبر نے پاکستان کی زبردست اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ فرانس کے ماہرین نے اعلان کیا کہ بلوچستان میں سبی کے مقام پر مہر گڑھ کے آثار سے ایک پینڈنٹ نما شے 25 برس قبل دریافت ہوئی تھی۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ یہ دنیا کا اولین نمونہ ہے جو دھات کاری (میٹالرجی) کی ایک خاص تکنیک ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔
مندرجہ ذیل تصویر میں دکھائی دینے والی یہ چیز شاید نظرِ بد سے بچنے کے لیے یا پھر زیور کے طور پر بنائی گئی تھی۔ خالص تانبے سے بنی اِس شے کو پہلے موم سے بنایا گیا پھر اِس سخت موم کو نرم گارے کے دو ٹکڑوں کے درمیان سینڈوچ کی طرح دبا دیا گیا اور مٹی کے ٹھیکرے کو دھوپ میں سکھا کر سخت کردیا گیا تھا۔ اِس طرح موم خدوخال کا ایک سانچہ وجود میں آگیا ۔ آخری مرحلے میں ایک باریک سوراخ کرکے پگھلا ہوا تانبا اندر ڈالا گیا جس نے موم کو پگھلا کر غائب کردیا اور یوں تانبے کا بے جوڑ لیکن پیچیدہ پینڈنٹ وجود میں آگیا۔
یہ ٹیکنالوجی ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کہلاتی ہے جو ’انویسٹمنٹ کاسٹنگ‘ کے نام سے اب بھی استعمال ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی یہ تکنیک استعمال کررہا ہے۔


پاکستان میں عطیہ برائے سائنس کا دائرہ

اگرآپ جامعہ کراچی میں واقع حسین ابراہیم جمال (ایچ ای جی) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری سے تین کلومیٹر کا ایک دائرہ کھینچیں تو اُس میں چار سے پانچ اہم سائنسی تحقیقی ادارے ایسے آجائیں گے جو مخیرحضرات کی جانب سے عطیہ کردہ رقم سے بنائے گئے ہیں اور اب تمام ادارے بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔
اِن اداروں میں سب سے پہلے خود ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری شامل ہے جو کراچی کے ایک صنعتکار لطیف ابراہیم جمال کی جانب سے 50 لاکھ روپے کی خطیر رقم سے (1970 کے عشرے میں) تعمیر کیا گیا۔ اب یہ ادارہ دنیا بھر میں کیمیا پر اعلیٰ ترین تحقیق کے حوالے سے مشہور ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس کے پہلو میں ایک اور مخیر پاکستانی کے عطیے سے ’’ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ‘‘ قائم کیا گیا۔ ان دونوں اداروں کو کچھ ہی عرصے میں یکجا کرکے ’’انٹرنیشنل سینٹر فار دی کیمیکل اینڈ بایولوجیکل سائنسز‘‘ (آئی سی سی بی ایس) قرار دے دیا گیا جو نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ دنیا بھر میں حیاتی و کیمیائی تحقیق کا اہم مرکز بن چکا ہے۔ صرف ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں یہاں کے ماہرین نے 24 کے قریب پیٹنٹ اپنے نام کی ہیں اور پاکستان بھر میں 350 سے زائد صنعتیں اِس ادارے کی تحقیقات سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔
ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف بائیالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ (کے آئی بی جے آئی) واقعہ ہے جسے پاکستان کے ممتاز ایٹمی سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ذاتی کاوشوں اور مالی امداد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اِسی طرح این ای ڈی یونیورسٹی میں کاوس جی ارتھ اسٹڈی سینٹر قائم کیا گیا ہے جسے ممتاز کالم نگار اور دانشور اردشیر کاوس جی کی ذاتی مالی مدد کے بعد قائم کیا گیا ہے۔ اِس مرکز میں زلزلہ برداشت کرنے والی عمارتوں اور مختلف مادوں پر بھی تحقیق کی جارہی ہے۔
یہ ادارے پاکستان میں عطیہ برائے سائنس کی زبردست مثال ہیں۔